یمن کے حوثی باغیوں میں شامل ایک عہدیدار نے امریکی صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن کی طرف سے ملکی جنگ کے خاتمے میں تعاون کی اپیل کی ہے۔
ایک عالمی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے حوثی حکومت کے وزیر برائے امور خارجہ ہشام شراف نے کہا کہ 'اگرچہ بائیڈن نے اپنے حریف سعودی عرب کے لئے امریکی حمایت کم کرنے کی بات کی ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'امریکی رہنماوں کو یمن میں جنگ روکنے کے لئے سعودیوں اور امارتیوں پر دباؤ ڈالنے اور انھیں ہدایت دینے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے'۔
شراف نے مزید کہا کہ 'ان کی حکومت امریکہ اور دوسرے ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم خود امن کی تلاش میں ہیں اور یمنیوں اور امریکی عوام کے مابین کوئی دشمنی نہیں ہے'۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حوثی اکثر مخالف امریکہ نعرے لگاتے ہیں۔
ان کے حامی اکثر امریکہ اور اسرائیل کے لئے موت کا بھی نعرہ لگاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حوثیوں کو ایرانی حکومت کی تائید حاصل ہے، وہ اسرائیل کو اپنا علاقائی دشمن کہتے ہیں۔
شراف نے کہا ہے کہ 'بعض اوقات جب ہم بددعا دیتے ہیں یا جب ہم امریکیوں کے خلاف نعرے لگاتے ہیں تو ہماری مراد امریکی انتظامیہ ہے، نا کہ وہاں کی عام عوام، جو سعودی حکومت کو مدد فراہم کرتی ہے'
- یمنی تنازعہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ یمن کا تنازعہ سنہ 2014 میں شروع ہوا، جب حوثیوں نے دارالحکومت صنعا اور ملک کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔
اس سے یمن کے صدر منصور الہادی کی حکومت کو اقتدار میں بحال کرنے کے لئے کئی ماہ بعد امریکی حمایت یافتہ عرب فوجی اتحاد کو مداخلت کرنے پر آمادہ کیا گیا۔
- یمن میں خوراک اور غذائی قلت کا بحران:
اس وقت سے تاحال اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں افراد کو خوراک اور طبی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے یمن کے بحران کو دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا ہے۔
ایک ڈیٹا بیس پروجیکٹ کے مطابق یمن میں تاحال 112،000 عام شہریوں سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔