عراق کے دارالحکومت بغداد میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے معاملے کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں اور متعلقہ عہدیداران کے ذریعہ خطرے کی گھنٹی بجانے کے بعد نمائش کے بڑے میدانوں میں عارضی طور پر اسپتال تیار کرکے اس میں کورونا وائرس وارڈوں کے لئے بستر لگا دیا گیا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد شدید معاشی بحران کے دوران ملک میں خوف و ہراس کا منظر بہت پریشان کن ہے۔ ملک میں بجٹ کے بڑھتے ہوئے خسارے کے ساتھ ڈاکٹر بہت کم طبی سامان پر کام کررہے ہیں۔
اسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے عراقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عارضی طور پر فیلڈ اسپتال بغداد میں کھلیں گے۔ یہ اسپتال ان علاقوں میں کھولیں جائیں گے جہاں انفیکشن سب سے زیادہ ہے، تاکہ وائرس کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ کیا جاسکے۔ عراق کا صحت کا نظام پہلے سے ہی ناقص انفراسٹرکچر اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے خراب تھا۔
اس دوران ہفتے کے روز فیئر میدانوں میں فیلڈ اسپتال تیار کرنے کا کام شروع ہوا اور 400 مرد و 100 خواتین کے لئے اسپتال تیار کر لیا گیا ہے۔ جب اسپتال میں چارپائیوں کی فراہمی ختم ہوگئی تو وہاں میٹل سے تیار سنگل بستر لگایا گیا۔
چیریٹیبل تنظیم الاقیق کے انجینئر محمد بند کا کہنا ہے کہ بستروں اور فیلڈ ہسپتالوں کی تعداد بڑھانے کے لئے مستقبل میں منصوبے تیار کرنے ہوں گے۔ یہ تنظیم صحت اور تجارت کی وزارتوں کے ساتھ مل کر وارڈ قائم کرنے کا کام انجام دے رہی ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے بعد وائرس کے پھیلاؤ میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں انفیکشن اتوار تک سات گنا بڑھ کر 30،868 سے زیادہ ہو گیا جو مئی کے آخر میں 4،000 سے بھی کم تھا۔ وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں بھی اضافہ ہوا۔ اس دوران تصدیق شدہ کیسوں میں 1،100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہلاک ہوئے 56 سالہ عراقی فٹ بال اسٹار احمد رادھی بھی ہیں، جو اتوار کو ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ تک کورونا سے لڑائی کے بعد فوت ہوگئے۔ انہوں نے 1986 میں اپنے ملک کا پہلا اور واحد ورلڈ کپ گول گول کیا تھا اور ان کا رشتہ سیاست سے بھی تھا۔
وزارت صحت کے ترجمان سیف البدر نے کہا کہ کورونا وائرس کے معاملات میں اضافہ، زیادہ جانچ کی وجہ سے ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی ایک وجہ حکومتی اقدامات پر عوامی سطح پر عمل نہ ہونا بھی ہے۔
پچھلے مہینے ایک دن میں 4000 جانچ کرنے کا نشانہ تھا لیین اب اسے بڑھا کر حالیہ دنوں میں 13،000 سے زیادہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے سے روزانہ 20،000 نمونوں کی جانچ کی جائے گی۔
عراق نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سخت اقدامات اٹھائے، جن میں اسکولوں، ریستوراں، عوامی اجتماعات اور بین الاقوامی سرحدوں کو بند کرنا شامل ہے۔
اضافی فیلڈ اسپتالوں کے باوجود ڈاکٹروں کو خوف ہے کہ یہ اقدامات انفیکشن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے ناکافی ہوں گے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وزارت صحت انفیکشن کی پہلی علامات کی نشاندہی کرنے کے لئے تیزی سے خون کے ٹیسٹوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن یہ ریپیڈ ٹیسٹنگ اکثر غلط ثابت ہوتی ہے۔
بغداد میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اسپتال میں بہت زیادہ بھیڑ ہے، یہاں افرا تفری کا ماحول ہے۔ وزارت کے حالیہ اقدامات کے متعلق عراقی صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور صحت کے عہدیداروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ انہیں صحافیوں سے بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ جنوبی شہر کربلا کے ایک اسپتال کے منیجر نے انہیں حکم دیا ہے کہ جس میں علامت نہ ہو ان کی جانچ نہ کی جائے، کیونکہ مریضوں کو اسپتال میں داخل کرنے کے لئے مزید بستر نہیں ہے۔
تمام ہیلتھ ورکرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا پی پی ای کیٹ خود خریدا ہے کیونکہ اسپتال انہیں بہت کم حفاظتی سامان مہیا کرا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے۔ کربلا کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ انہوں نے اسپتال سے دستانے، ماسک اور حفاظتی سوٹ مانگا تھا لیکن انہیں بتایا گیا کہ اب وہ ختم ہو چکا ہے۔ بصرہ اور بغداد میں ڈاکٹروں نے اسی طرح کے مسائل کا ذکر کیا ہے۔
بغداد کے ایک بڑے اسپتال میں وائرس کے مریضوں سے نمٹنے کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ تعداد ہماری تشویش کا باعث ہے اور ہم پہلے سے ہی کافی پریشان ہیں۔ ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ وزارت صحت کو فنڈز کی اشد ضرورت ہے لیکن حکومت کی طرف سے اس کے لئے خصوصی بجٹ کو منظوری نہیں دی گئی ہے، جو تیل کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں شدید کمیوں سے دوچار ہے۔
عراق ریاستی محصولات کا 90٪ فنڈ خام برآمدات پر منحصر کرتا ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ ہمیں پچھلے بجٹ کے مقابلے دوگنا بجٹ چاہئے لیکن وزیر اعظم کے دفتر کے عہدیداروں نے بتایا کہ وزارت صحت کے لئے مختص فنڈز بھی موثر انداز میں خرچ نہیں ہو رہے ہیں۔
انتظامیہ نے قواعد و ضوابط کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ لاجسٹک مینجمنٹ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹ ورک کمزور ہے۔