افغانستان کے طالبان رہنماؤں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ برطانیہ کے خصوصی سفاتکاروں سے ملاقات کی، اس اقدام سے طالبان کو امید ہے کہ ملک کے لیے خالی خزانے کو دوبارہ بھرنے کی راہ ہموار ہوگی کیونکہ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
دارالحکومت کابل میں برطانوی سفارتکاروں کے ساتھ طالبان کی ملاقات ایک دن بعد ہوئی جب انہوں نے ایک ایرانی وفد سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے تجارتی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جو کہ افغانستان کی معیشت کا ایک اہم محرک ہے۔
برطانوی دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کے لیے اس کے خصوصی سفیر سائمن گاس اور برطانوی سفارت خانے کے مارٹن لانگڈین نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
ملاقات کے دوران طالبان قیادت کے ساتھ وسیع پیمانے پر موضوعات زیر بحث آئے، بشمول انسانی بحران، دہشت گردی، برطانیہ اور افغان شہریوں کے محفوظ راستے کی اہمیت اور خواتین اور لڑکیوں کے حقوق۔
مارٹن لانگڈین نے اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں ملاقات کی ایک تصویر پوسٹ کی اور کہا ''یہ ابتدائی ایام ہیں، اور حیرت انگیز طور پر، ہمارے درمیان نکتہ نظر کے حوالے سے بہت سے اختلافات ہیں۔ لیکن افغانستان اور (اس سے آگے) کے حوالے سے مستقبل میں اس طرح کے مشکل چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ یہ جانچنا درست ہے کہ کیا ہم عملی طور پر مشغول ہوسکتے ہیں اور برطانیہ اور افغان عوام دونوں کے مفادات میں مشترکہ بنیاد تلاش کرسکتے ہیں۔"
طالبان نے امریکی کھاتوں میں منجمد اربوں افغان اثاثوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری افغان قوم کا نقد سرمایہ ہماری قوم کو واپس کرے اور ہم تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے پرعزم ہیں۔
طالبان کے ترجمان بلال کریمی نے بتایا کہ طالبان نے پیر کے روز پڑوسی ملک ایران کے وفد سے ملاقات کی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو منظم کیا جا سکے۔
انہوں نے اسلام قلعہ بارڈر کراسنگ پر تجارتی اوقات کو روزانہ آٹھ گھنٹے سے بڑھا کر 24 کرنے اور ٹیرف کی وصولی کو بہتر سے بہتر بنانے اور روڈ ورکس کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔ کسٹمز افغانستان کی ملکی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
افغانستان جو امداد پر انحصار کرنے والا ملک ہے ، لیکویڈیٹی کے بحران سے دوچار ہے کیونکہ امریکہ میں اثاثے منجمد ہیں اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ادائیگیوں کو روک دیا گیا ہے جو کسی وقت ریاستی اخراجات کا 75 فیصد تھا۔