زمبابوے کے متعدد قومی ذرائع کے مطابق سابق صدر رابرٹ موگابے کی 95 برس کی عمر میں موت ہوگئی ہے۔
رابرٹ موگابے، زمبابوے میں سنہ 1980 سے سنہ 2017 کے دوران ملک کی رہنمائی کرنے والے معروف سیاستداں تھے۔
سابق صدر کے انتقال کے بعد ملک بھر میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
بتایا جارہا ہے کہ وہ سنگاپور کے ایک ہسپتال میں طبیعت کی شدید خرابی کے بعد انتقال کرگئے۔
جنوبی افریقہ کے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر دیوا موہنگا نے بتایا کہ موگابے کے بھتیجے نے انہیں سابق وزیراعظم کی موت کے بارے میں بتایا۔
موہنگا نے مزید کہا کہ موگابے کی کابینہ میں خدمات انجام دینے والے تین سابق وزرا نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
مزید پڑھیں : روحانی کا جوہری تحقیق و ترقی کو توسیع دینےکا اعلان
ان کی موت کی تصدیق کرنے والے پیغام میں کہا گیا ہے ' گوشنگو اب کوئی نہیں ہے۔ سکون سیکور میں آرام کرو'۔ گوشنگو موگابے کے قبیلہ کا نام ہے اور سیکورو کا مطلب چچا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت کے ایم ڈی سی زمبابوے کے سیکرٹری برائے تعلیم فوڈزئی ماہر نے ٹویٹ کیا کہ 'رابرٹ موگابے آپ کی آتما کو شانتی ملے۔ آپ کے انتقال پر میں غم زدہ ہوں۔ میں ایک طویل خط لکھوں گا۔ تاہم فی الحال ان کے اہل خانہ سے گہری تعزیت پیش ہے'۔
تفصیلات کے مطابق موگابے کی اہلیہ نے مشورہ دیا کہ وہ حزب اختلاف کی تحریک برائے ڈیموکریٹک چینج کو ووٹ دیں۔ اس پارٹی کو انہوں نے سنہ 2008 میں اتحاد سے پہلے بے دردی سے دبا دیا تھا، جس پر اب بھی ان کا غلبہ تھا۔
موگابے نے آخر تک افریقی براعظم سے اچھے تعلقات رکھے لیکن تیزی سے ایک بین الاقوامی پیاریہ بن گیا۔ موگابے سے 2008 میں برطانوی حکومت نے 'اعزازی نائٹ ہڈ' چھین لی تھی۔
کیتھولک مشنری اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے والے موگابے، گھانا میں پیشہ تدریس سے وابستہ رہے اور پھر سفید اقلیت کی حکمرانی کا مقابلہ کرنے کے لیے 1960 میں روڈیسیا واپس آئے۔
موگابے کو 10 برس کے لیے جیل بھیج دیا گیا اور وہ پڑوسی ملک موزمبیق بھاگ گیے، جہاں وہ ایان اسمتھ کی حکومت سے لڑنے والی گوریلا فوج کے قائدین میں شامل ہوگیا۔
اپنی آخری پریس کانفرنس میں موگابے اپنی اہلیہ سے بہت خوش تھے۔ انہوں نے زمبابوے کے نئے حکمرانوں سے اپنے شریک حیات کے ساتھ بہتر سلوک کا مطالبہ کیا۔