تھریسا گریفن نے ٹویٹر پیغام کے ذریعے وضاحت کی ہے کہ یورپی یونین کے اس گروپ کی آفیشل حیثیت نہیں ہے۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ،تھریسا گریفن نے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں بندشیں ہٹائی جائی اور آئین کی طرف سے فراہم کردہ قوانین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔
واضح رہے کہ ملک کی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے اس گروپ کے دورہ کشمیر پر سوال اٹھائے ہیں۔ان کے دورہ پر کہا گیا کہ وادی کی حالات کو جاننے کے لیے پہنچا یہ وفد اسلامو فوبیا (نازی ازم کو ماننے والے ) کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ وفد ایک مسلم اکثریت والے علاقے کا دورہ کرنے جارہا ہے۔
سرینگر میں آج پریس کانفرنس کے دوران یوروپی پالیمان کے وفد نے کہا کہ کہ' اگر وہ نازی نظریات کی حامی ہوتے تو وہ یہاں کے لیے منتخب نہ ہوتے اور ہمیں نازیوں کی حمایت کہلانے پر سخت ناراضگی ہے۔
میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے یوروپی یونین کے وفد نے کہا کہ وہ بھارت میں سیاسی مداخلت کے لیے نہیں بلکہ حقائق تلاش کرنے کے لئے آئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
وفد نے کہا کہ چونکہ دفعہ 370 بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے لہذا وہ یورپی یونین کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کریں گے۔