ETV Bharat / international

وبا کے دوران بھارت کی مدد کے لئے لندن میں مقیم بھارتی طلبا آگے آئے

author img

By

Published : May 5, 2021, 10:40 PM IST

برطانیہ میں مقیم بھارتی طلبا نے بحران سے نمٹنے کے لئے پلازما ڈونر ڈیٹا بیس شروع کیا ہے۔ بھارت میں صورتحال مایوس کن ہے لیکن برطانیہ میں خیراتی اداروں نے اس پر فوری کام شروع کیا ہے۔

indians
indians

بھارت سے تعلق رکھنے والے یہ طلبا ہزاروں میل دور اپنے گھر والوں کے لئے فکرمند ہیں۔

وسطی لندن میں واقع انڈین وائی ایم سی آر ہاسٹل میں رہنے والے طلبا کے لئے وائرس کے خطرے سے تحفظ کے لئے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا کہنا ہے کہ جنوری کے بعد سے تصدیق شدہ معاملات میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے اور برطانیہ میں کووڈ 19 مثبت تجربہ کرنے والوں کی تعداد گزشتہ سات دنوں کے مقابلے میں تین مئی کو تقریباً 7.8 فیصد کم رہی ہے لیکن یہ ان جیسے بھارتی طلبا کے لئے تسلی بخش نہیں ہے کیونکہ یہ بھارت میں پیدا شدہ کووڈ بحران سے فکرمند ہیں جو فی الحال برطانیہ کی ریڈ لسٹ میں شامل ہے جن ممالک سے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔

وبا کے دوران بھارت کی مدد کے لئے لندن میں مقیم بھارتی طلبہ آگے آئے

بھارت میں وزارت صحت نے منگل کے روز 3،449 اموات کی اطلاع دی۔

ملک میں سرکاری طور پر تصدیق شدہ اوسطاً معاملات 3 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ چکے ہیں جو یکم اپریل تک 65 ہزار ہی تھے۔

بھارت میں کورونا وائرس کے معاملات منگل کے روز دو کروڑ سے زائد ہو چکے ہیں، یہ تعداد گذشتہ تین ماہ میں دگنا ہو گئی ہے۔ اس دوران دو لاکھ بیس ہزار اموات کی تصدیق حکومت نے کی ہے حالانکہ اموات کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سارے معاملوں میں کورونا سے اموات کو درج ہی نہیں کیا گیا ہے، کئی معاملے میں لوگ کورونا چانچ بھی نہیں کرا پاتے ہیں۔ اس کی تصدیق اس بات سے کی جا سکتی ہے کہ کسی ریاست میں جتنی اموات کا اعدادوشمار حکومت بتاتی ہے۔ اس سے کئی گنا زیادہ لاشوں کی آخری رسومات شمشان گھاٹوں پر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

لندن بزنس اسکول سے گریجویٹ تریشلا بوتھرا کو گھر واپس جانے والوں کی کوششوں سے کچھ سکون ملا ہے کیونکہ انہوں نے خاندان کی تصویر شیئر کی ہیں۔

انہوں نے وائرس میں مبتلا دوسروں کی مدد کے لئے خون کا پلازما بھی عطیہ کیا ہے۔

وہ اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کس طرح ملک میں کورونا کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد اب گھر کے قریب پہنچ چکی ہے۔

تریشلا بوتھرا کا کہنا ہے کہ "بھارت میں دو تین ہفتوں سے جو ہو رہا ہے، اس سے میں پریشان ہو رہی ہوں۔ مجھے اپنے دور دراز کے کنبے کے بارے میں خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ دراصل ان میں سے کچھ نے مثبت تجربہ کیا تھا اور انہیں آئی سی یو میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ اپنے کنبہ سے نہیں مل سکے اور ہم مدد کرنے کے قابل نہیں تھے۔ پھر میرے والدین نے حال ہی میں ٹیکے کی دوسری خوراک لی لیکن اس کے بعد میں نے ویکسین کے مضر اثرات کے بارے میں سننا شروع کیا۔ تیسری اور چوتھی لہر کے دوران میرے بھائی بھی کورونا متاثر ہو گئے، اس لئے میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوئی اور میں مسلسل ان کی جانکاری لے رہی ہوں۔''

انڈین وائی ایم سی اے 1920 میں بھارت سے آنے والے طلبا کے لئے ہاسٹل اور ثقافتی مرکز کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لئے لندن پہنچتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لئے یہ گھر سے دور ایک گھر کی طرح ہے جس کی مدد سے وہ بیرون ملک میں مقیم اپنے لوگوں کے قریب رہ سکتے ہیں۔

نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی جیسیکا داور لندن اسکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "آپ کی اپنی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ہونا واقعی میں بہت پرسکون ہوتا ہے۔"

لندن بزنس اسکول سے گریجویٹ نیکھیل گاواڈے باقاعدہ طورپر اپنے کنبے سے رابطے میں ہیں، جب دو ہفتے قبل سے اس وبا کا اثر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ میرے لئے دل دہلا دینے والا تھا، خاص طور پر جب میرے والد کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن میں ان سے دور تھا اور میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس وقت میں کافی تنہائی کا احساس کر رہا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے''۔

"لیکن پھر کچھ دن بعد جب وہ صحتیاب ہوئے تو مجھے یہ احساس ہوا کہ 'مجھے اپنے ملک کی مدد کرنی چاہئے' اور اسی طرح میں نے اور میرے کچھ دوستوں نے پلازما ڈونر ڈیٹا بیس شروع کیا۔"

یونیورسٹی کالج لندن میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ڈاکٹر نیلا ناچیاپن بھارت میں کووڈ مریضوں کے سامنے درپیش صحت کے خدشات سے فکرمند ہیں۔

بھارت میں صورت حال مایوس کن ہوسکتی ہے لیکن برطانیہ میں خیراتی اداروں نے اس پر فوری کام شروع کیا ہے۔

ہیتان مہتا برٹش ایشین ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ایک ترقیاتی تنظیم ہے جو جنوبی ایشیاء میں پسماندہ طبقات کی مدد کرتی ہے۔

برٹش ایشین ٹرسٹ نے حال ہی میں بھارت کے ایسے اسپتالوں میں آکسیجن فراہم کرنے کی ہنگامی اپیل کی ہے جہاں ان کی انتہائی ضرورت ہے۔

ہیتان مہتا کا کہنا ہے کہ "ہم بھارت میں ایک شراکت دار تنظیم کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ انہیں شہری مراکز میں فراہمی کے بجائے زمین پر ان کی فراہمی کی جاسکے''۔

اس اپیل سے اب تک 7 1.7 ملین کی مدد حاصل ہوئی ہے اور وہ مجموعی طور پر 2 ملین ڈالر جمع کرنے کی امید کر رہے ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے یہ طلبا ہزاروں میل دور اپنے گھر والوں کے لئے فکرمند ہیں۔

وسطی لندن میں واقع انڈین وائی ایم سی آر ہاسٹل میں رہنے والے طلبا کے لئے وائرس کے خطرے سے تحفظ کے لئے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا کہنا ہے کہ جنوری کے بعد سے تصدیق شدہ معاملات میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے اور برطانیہ میں کووڈ 19 مثبت تجربہ کرنے والوں کی تعداد گزشتہ سات دنوں کے مقابلے میں تین مئی کو تقریباً 7.8 فیصد کم رہی ہے لیکن یہ ان جیسے بھارتی طلبا کے لئے تسلی بخش نہیں ہے کیونکہ یہ بھارت میں پیدا شدہ کووڈ بحران سے فکرمند ہیں جو فی الحال برطانیہ کی ریڈ لسٹ میں شامل ہے جن ممالک سے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔

وبا کے دوران بھارت کی مدد کے لئے لندن میں مقیم بھارتی طلبہ آگے آئے

بھارت میں وزارت صحت نے منگل کے روز 3،449 اموات کی اطلاع دی۔

ملک میں سرکاری طور پر تصدیق شدہ اوسطاً معاملات 3 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ چکے ہیں جو یکم اپریل تک 65 ہزار ہی تھے۔

بھارت میں کورونا وائرس کے معاملات منگل کے روز دو کروڑ سے زائد ہو چکے ہیں، یہ تعداد گذشتہ تین ماہ میں دگنا ہو گئی ہے۔ اس دوران دو لاکھ بیس ہزار اموات کی تصدیق حکومت نے کی ہے حالانکہ اموات کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سارے معاملوں میں کورونا سے اموات کو درج ہی نہیں کیا گیا ہے، کئی معاملے میں لوگ کورونا چانچ بھی نہیں کرا پاتے ہیں۔ اس کی تصدیق اس بات سے کی جا سکتی ہے کہ کسی ریاست میں جتنی اموات کا اعدادوشمار حکومت بتاتی ہے۔ اس سے کئی گنا زیادہ لاشوں کی آخری رسومات شمشان گھاٹوں پر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

لندن بزنس اسکول سے گریجویٹ تریشلا بوتھرا کو گھر واپس جانے والوں کی کوششوں سے کچھ سکون ملا ہے کیونکہ انہوں نے خاندان کی تصویر شیئر کی ہیں۔

انہوں نے وائرس میں مبتلا دوسروں کی مدد کے لئے خون کا پلازما بھی عطیہ کیا ہے۔

وہ اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کس طرح ملک میں کورونا کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد اب گھر کے قریب پہنچ چکی ہے۔

تریشلا بوتھرا کا کہنا ہے کہ "بھارت میں دو تین ہفتوں سے جو ہو رہا ہے، اس سے میں پریشان ہو رہی ہوں۔ مجھے اپنے دور دراز کے کنبے کے بارے میں خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ دراصل ان میں سے کچھ نے مثبت تجربہ کیا تھا اور انہیں آئی سی یو میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ اپنے کنبہ سے نہیں مل سکے اور ہم مدد کرنے کے قابل نہیں تھے۔ پھر میرے والدین نے حال ہی میں ٹیکے کی دوسری خوراک لی لیکن اس کے بعد میں نے ویکسین کے مضر اثرات کے بارے میں سننا شروع کیا۔ تیسری اور چوتھی لہر کے دوران میرے بھائی بھی کورونا متاثر ہو گئے، اس لئے میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوئی اور میں مسلسل ان کی جانکاری لے رہی ہوں۔''

انڈین وائی ایم سی اے 1920 میں بھارت سے آنے والے طلبا کے لئے ہاسٹل اور ثقافتی مرکز کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لئے لندن پہنچتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لئے یہ گھر سے دور ایک گھر کی طرح ہے جس کی مدد سے وہ بیرون ملک میں مقیم اپنے لوگوں کے قریب رہ سکتے ہیں۔

نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی جیسیکا داور لندن اسکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "آپ کی اپنی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ہونا واقعی میں بہت پرسکون ہوتا ہے۔"

لندن بزنس اسکول سے گریجویٹ نیکھیل گاواڈے باقاعدہ طورپر اپنے کنبے سے رابطے میں ہیں، جب دو ہفتے قبل سے اس وبا کا اثر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ میرے لئے دل دہلا دینے والا تھا، خاص طور پر جب میرے والد کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن میں ان سے دور تھا اور میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس وقت میں کافی تنہائی کا احساس کر رہا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے''۔

"لیکن پھر کچھ دن بعد جب وہ صحتیاب ہوئے تو مجھے یہ احساس ہوا کہ 'مجھے اپنے ملک کی مدد کرنی چاہئے' اور اسی طرح میں نے اور میرے کچھ دوستوں نے پلازما ڈونر ڈیٹا بیس شروع کیا۔"

یونیورسٹی کالج لندن میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ڈاکٹر نیلا ناچیاپن بھارت میں کووڈ مریضوں کے سامنے درپیش صحت کے خدشات سے فکرمند ہیں۔

بھارت میں صورت حال مایوس کن ہوسکتی ہے لیکن برطانیہ میں خیراتی اداروں نے اس پر فوری کام شروع کیا ہے۔

ہیتان مہتا برٹش ایشین ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ایک ترقیاتی تنظیم ہے جو جنوبی ایشیاء میں پسماندہ طبقات کی مدد کرتی ہے۔

برٹش ایشین ٹرسٹ نے حال ہی میں بھارت کے ایسے اسپتالوں میں آکسیجن فراہم کرنے کی ہنگامی اپیل کی ہے جہاں ان کی انتہائی ضرورت ہے۔

ہیتان مہتا کا کہنا ہے کہ "ہم بھارت میں ایک شراکت دار تنظیم کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ انہیں شہری مراکز میں فراہمی کے بجائے زمین پر ان کی فراہمی کی جاسکے''۔

اس اپیل سے اب تک 7 1.7 ملین کی مدد حاصل ہوئی ہے اور وہ مجموعی طور پر 2 ملین ڈالر جمع کرنے کی امید کر رہے ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.