فرانس کی پارلیمنٹ میں بنیاد پرستی مخالف بل پر ووٹنگ ہوئی۔ اس بل کے حوالے سے فرانس کے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں۔
یہ بل فرانس کے صدر ایمینوئل میکخواں نے متعارف کروایا ہے۔ اس کا مقصد اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ملک کو تیار کرنا ہے۔ یہ مسودہ قانون صدر ایمانوئل میخوان کی سرپرستی میں تحریر ہوا ہے تاکہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔
فرانسیسی مسلمان کہتے ہیں کہ اس بل میں مذہبی آزادی کو محدود کیا گیا ہے اور غیر منصفانہ طور پر ان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فرانس میں پہلے ہی انسداد دہشت گردی سے متعلق ایسے کافی قوانین موجود ہیں جن کا ہدف اقلیتی مسلم آبادی ہے۔
نقادوں نے آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل دائیں بازو کے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے میکخواں کے ذریعہ اس بل کو ایک سیاسی داؤ قرار دیا ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا کہ اس بل کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس قانون سازی کے تحت کسی شخص کی ذاتی زندگی، اس کے گھر والوں یا اس کی پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق معلومات کو عام کرنا جس سے اس کی شناخت ممکن ہو اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو، قابل سزا جرم مانا جائے گا۔ بل میں اس جرم کے لیے تین برس کی قید اور 45 ہزار یورو تک کے جرمانہ کا التزام کیا گیا ہے۔
بل کے قانون بننے کی صورت میں مذہبی گروہوں کو 10 ہزار یورو سے زائد کے عطیات کو ظاہر کرنا ہوگا۔ اس کا مقصد فرانس کے مذہبی اداروں پر سے بیرونی اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے۔
کوئی بھی ایسا گروپ یا ادارہ جو حکومت سے سبسڈی طلب کرے گا، اسے جمہوری اقدار کے احترام سے متعلق معاہدے پر دستخط کرنا لازمی ہوگا۔ اگر وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو دی جانے والی رقم حکومت بزور قوت واپس وصول کرے گی۔
صدر ایمینوئل میکخواں کا کہنا ہے کہ فرانس کے سیکولر نظام کو مضبوط بنانے کے لیے اس قانون سازی کی ضرورت ہے۔ حالانکہ اس قانون سازی نے فرانس میں موجود یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت پر معاشرتی دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی اندازاً 50 لاکھ ہے۔