دونوں رہنماؤں نے ترکی کو انتباہ دیا ہے کہ اس حملے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور شدت پسند جنگجو تنظیم داعش کو پھر سے سر اٹھانے کا موقع مل جائے گا۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں عمانوایل میخواں نے انجیلا میرکل سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ' ہماری مشترکہ خواہش ہے کہ اس حملے کو روک دیا جائے۔
اینجیلا میرکل نے کہا کہ انھوں نے ترک صدر رجب طیب ایردوگان سے ایک گھنٹے تک ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور ان پر واضح کیا ہے کہ' اس ترک حملے کا اب خاتمہ ہوجانا چاہیے'۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'ہمارے مطالبے کی انسانی وجوہات ہیں، ہم کردوں کے خلاف اس صورت حال کو تسلیم نہیں کرسکتے اور اس کا کوئی اور حل تلاش کیا جانا چاہیے'۔
اس موقع پر فرانسیسی صدر عمانوایل ماکروں نے بھی کہا کہ 'اس حملے سے ناقابل برداشت انسانی صورت حال پیدا ہونے کے خطرات بڑھ گئے، ہیں اور خطے میں داعش کے انتہا پسند دوبارہ ابھر سکتے ہیں'۔
واضح رہے کہ ترکی کی مسلح افواج نے گذشتہ بدھ کو شام کے شمال مشرقی علاقے میں کرد ملیشیا کے زیر قیادت شامی جمہوری فورسز کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ ترکی شامی جمہوری فورسز کو دہشت گرد گروپ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس میں بالادست قوت کرد ملیشیا (وائی پی جی) کے ترکی کے کرد باغیوں سے تعلقات ہیں۔
اس معاملے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے اس علاقے میں موجود اپنے فوجیوں کو ترک فوج کی کارروائی سے قبل انخلا کا حکم دیا تھا۔اس فیصلے پر امریکی صدر پر داعش کے خلاف لڑائی میں ایک وفادار اتحادی کردار ادا کرنے والے کردوں سے مُنھ موڑنے اور انھیں تنہا چھوڑنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔