ETV Bharat / international

ماحولیاتی تبدیلی عالمی وباؤں سے زیادہ ہلاکت خیز - Climate change is more deadly than global pandemic

دنیا کے ممالک کو جلد از جلد کارروائی شروع کر دینی چاہیے، تاکہ کرہ ارض اور اس پر رہنے والوں کو ہولناک تباہی سے بچایا جاسکے۔

Climate change
Climate change
author img

By

Published : Sep 7, 2021, 12:58 PM IST

Updated : Sep 7, 2021, 2:39 PM IST

تاریخ میں پہلی بار 220 سے زائد طبّی تحقیقی جرائد (میڈیکل ریسرچ جرنلز) نے مشترکہ اداریہ شائع کیا ہے، جس میں سیاستدانوں، پالیسی سازوں، عوام اور بالخصوص امیر ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کووڈ 19 وبا کو بنیاد بنا کر ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات میں دیر نہ کی جائے۔

اس اداریہ کے مصنّفین میں دنیا کے مایہ ناز طبّی ماہرین کے علاوہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ، ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہوم گیبریئسس بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی ایک بیماری کے مقابلے میں ’’عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے وابستہ خدشات کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ کووڈ-19 کی عالمی وبا ختم ہوجائے گی لیکن ماحولیاتی بحران کی کوئی ویکسین نہیں ہے۔‘‘

یہ اداریہ بطورِ خاص اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اجلاس اور گلاسگو، برطانیہ میں نومبر 2021 کے دوران منعقد ہونے والی ’’کوپ-26‘‘ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا ہے۔

اس مشترکہ اداریہ میں زور دیا گیا ہے کہ 2015 میں ماحولیاتی تحفظ کےلیے عالمی ’پیرس معاہدے‘ پر فوری اور غیر مشروط عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

اداریہ میں ماہرین کا مؤقف ہے کہ ماحول اور صحت کا آپس میں براہِ راست تعلق ہے لہٰذا بڑھتی ہوئی ماحولیاتی خرابی کا نتیجہ اس دنیا میں رہنے والے اربوں انسانوں کے لیے، جن کی اکثریت غریب اور کم تر وسائل والے ملکوں میں آباد ہے، صحت کے شدید ترین مسائل کی صورت میں نکلے گا۔

پروفیسر ایٹوولی نے لکھا کہ ’’مستقبل میں عالمی عوامی صحت کو سب سے بڑا خطرہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے اور قدرتی نظام کی بحالی کےلیے مناسب عملی اقدامات کرنے میں عالمی سربراہان کی مسلسل ناکامیوں سے ہوگا،‘‘ مشترکہ اداریہ میں ماہرین نے خبردار کیا۔ اداریہ کے ایک حصے میں ’ایسٹ افریقن میڈیکل جرنل‘ کے ایڈیٹراِن چیف، پروفیسر لیوکوئے ایتوولی نے توجہ دلائی کہ غریب اور اوسط آمدن والے ملکوں نے تاریخی اعتبار سے عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں بہت کم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے باوجود (امیر اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی پھیلائی ہوئی آلودگی کے باعث) ان غریب ممالک کو بدترین اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں عوامی صحت سے متعلق سنگین مسائل بھی شامل ہیں۔ لہٰذا امیر اور صنعتی ممالک کو ماضی میں اپنی کارگزاریوں کا ازالہ کرنے کےلیے (غریب ملکوں سے) زیادہ حصہ لینا ہوگا اور اس عمل کا ’’فوری طور پر آغاز کرتے ہوئے اسے مستقبل میں بھی جاری رکھنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے

ماہرین کے اداریوں کا لب لباب یہ تھا کہ دنیا کے ممالک کو اس حوالہ سے جتنی جلد ہو کارروائی شروع کردینی چاہئے، تاکہ کرہ ارض اور اس پر رہنے والوں کو ہولناک تباہی سے بچایا جاسکے۔

(یو این آئی)

تاریخ میں پہلی بار 220 سے زائد طبّی تحقیقی جرائد (میڈیکل ریسرچ جرنلز) نے مشترکہ اداریہ شائع کیا ہے، جس میں سیاستدانوں، پالیسی سازوں، عوام اور بالخصوص امیر ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کووڈ 19 وبا کو بنیاد بنا کر ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات میں دیر نہ کی جائے۔

اس اداریہ کے مصنّفین میں دنیا کے مایہ ناز طبّی ماہرین کے علاوہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ، ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہوم گیبریئسس بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی ایک بیماری کے مقابلے میں ’’عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے وابستہ خدشات کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ کووڈ-19 کی عالمی وبا ختم ہوجائے گی لیکن ماحولیاتی بحران کی کوئی ویکسین نہیں ہے۔‘‘

یہ اداریہ بطورِ خاص اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اجلاس اور گلاسگو، برطانیہ میں نومبر 2021 کے دوران منعقد ہونے والی ’’کوپ-26‘‘ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا ہے۔

اس مشترکہ اداریہ میں زور دیا گیا ہے کہ 2015 میں ماحولیاتی تحفظ کےلیے عالمی ’پیرس معاہدے‘ پر فوری اور غیر مشروط عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

اداریہ میں ماہرین کا مؤقف ہے کہ ماحول اور صحت کا آپس میں براہِ راست تعلق ہے لہٰذا بڑھتی ہوئی ماحولیاتی خرابی کا نتیجہ اس دنیا میں رہنے والے اربوں انسانوں کے لیے، جن کی اکثریت غریب اور کم تر وسائل والے ملکوں میں آباد ہے، صحت کے شدید ترین مسائل کی صورت میں نکلے گا۔

پروفیسر ایٹوولی نے لکھا کہ ’’مستقبل میں عالمی عوامی صحت کو سب سے بڑا خطرہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے اور قدرتی نظام کی بحالی کےلیے مناسب عملی اقدامات کرنے میں عالمی سربراہان کی مسلسل ناکامیوں سے ہوگا،‘‘ مشترکہ اداریہ میں ماہرین نے خبردار کیا۔ اداریہ کے ایک حصے میں ’ایسٹ افریقن میڈیکل جرنل‘ کے ایڈیٹراِن چیف، پروفیسر لیوکوئے ایتوولی نے توجہ دلائی کہ غریب اور اوسط آمدن والے ملکوں نے تاریخی اعتبار سے عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں بہت کم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے باوجود (امیر اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی پھیلائی ہوئی آلودگی کے باعث) ان غریب ممالک کو بدترین اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں عوامی صحت سے متعلق سنگین مسائل بھی شامل ہیں۔ لہٰذا امیر اور صنعتی ممالک کو ماضی میں اپنی کارگزاریوں کا ازالہ کرنے کےلیے (غریب ملکوں سے) زیادہ حصہ لینا ہوگا اور اس عمل کا ’’فوری طور پر آغاز کرتے ہوئے اسے مستقبل میں بھی جاری رکھنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے

ماہرین کے اداریوں کا لب لباب یہ تھا کہ دنیا کے ممالک کو اس حوالہ سے جتنی جلد ہو کارروائی شروع کردینی چاہئے، تاکہ کرہ ارض اور اس پر رہنے والوں کو ہولناک تباہی سے بچایا جاسکے۔

(یو این آئی)

Last Updated : Sep 7, 2021, 2:39 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.