ETV Bharat / international

بریگزٹ کی آخری تاریخ 31 جنوری، اہم فیصلے کی توقع

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ برطانیہ یورپین یونین سے علیحدہ ہوکر کس راہ پر جا سکتا ہے۔ کیا بھارت کے ساتھ برطانیہ کے معاشی تعلقات پیدا ہوں گے؟

author img

By

Published : Dec 26, 2019, 11:39 PM IST

بریگزٹ کی آخری تاریخ 31 جنوری، اہم فیصلہ
بریگزٹ کی آخری تاریخ 31 جنوری، اہم فیصلہ

برطانیہ میں گذشتہ 12 دسمبر کو عام انتخابات ہوئے۔ جس میں کنزرویٹیو پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے، اس کے اہم رہنما اور وزیر اعظم بورس جانسن نے موجودہ انتخاب میں بریگزٹ کا معاملہ خوب زور و شور سے اٹھایا تھا۔

آخر کار ان کا مدعا دیگر مدعوں پر حاوی رہا، یہی وجہ تھی کہ کنزرویٹو پارٹی نے 650 میں سے 365 سیٹیں حاصل کر لی۔ اور بورس جانسن واضح اکثریت کے ساتھ دوبارہ برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔

در اصل اس انتخاب میں کنزویٹیو پارٹی کی کامیابی اور بورس جانسن کا وزیر اعظم منتخب ہونا، یہ واضح کرتا ہے، کہ برطانیہ بریگزٹ کے حق میں ہے۔ اور اس طرح دوبارہ ریفرنڈم کا معاملہ تقریبا ختم ہو جاتا ہے۔

لیبر پارٹی کو اس انتخاب سے بہت کچھ امیدیں تھیں، لیکن پارٹی کی زبردست شکست سے حزب اختلاف کے رہنما جیرمی کاربین کا بریگزٹ سے متعلق تمام طرح کی مہمات تقریبا ناکام ہو چکی ہیں۔

اب ایسی صورت میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ برطانیہ یورپین یونین سے علیحدہ ہوکر کس راہ پر جا سکتا ہے۔ کیا بھارت کے ساتھ برطانیہ کے معاشی تعلقات پیدا ہوں گے؟

بغیر کسی معاہدے کے بریگزٹ ہونے کی صورت میں لازمی طور پر برطانیہ اور بھارت ایک دوسرے کے قریب ہوں گے، جیسا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بورس جانسن کو مبارکباد دیتے ہوئے دونوں ممالک کے قریب آنے کی بات بھی کہی تھی۔

کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بورس جانسن بریگزٹ کے حامی رہے ہیں، اور اس انتخاب میں انہیں بریگزٹ کے لیے ہی ووٹ ملے ہیں، اس لیے برطانیہ ہر حال میں یورپین یونین سے الگ ہو جائے گا۔ اور ماہرین کا ماننا ہے کہ ہارڈ بریگزٹ یعنی بغیر کسی معاہدے کے بریگزٹ ہونے کے امکانات زیادہ نظر آ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ بریگزٹ کے سبب دو وزرائے اعظم کو اپنے عہدوں سے برخواست ہونا پڑا ہے۔ اب جبکہ بریگزٹ کی آخری تاریخ 31 جنوری سنہ 2020 ہے، تو ایسے میں یہ دیکھنے والی بات ہو گی کہ بریگزٹ کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے، اور اس بریگزٹ سے کس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں گذشتہ 12 دسمبر کو عام انتخابات ہوئے۔ جس میں کنزرویٹیو پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے، اس کے اہم رہنما اور وزیر اعظم بورس جانسن نے موجودہ انتخاب میں بریگزٹ کا معاملہ خوب زور و شور سے اٹھایا تھا۔

آخر کار ان کا مدعا دیگر مدعوں پر حاوی رہا، یہی وجہ تھی کہ کنزرویٹو پارٹی نے 650 میں سے 365 سیٹیں حاصل کر لی۔ اور بورس جانسن واضح اکثریت کے ساتھ دوبارہ برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔

در اصل اس انتخاب میں کنزویٹیو پارٹی کی کامیابی اور بورس جانسن کا وزیر اعظم منتخب ہونا، یہ واضح کرتا ہے، کہ برطانیہ بریگزٹ کے حق میں ہے۔ اور اس طرح دوبارہ ریفرنڈم کا معاملہ تقریبا ختم ہو جاتا ہے۔

لیبر پارٹی کو اس انتخاب سے بہت کچھ امیدیں تھیں، لیکن پارٹی کی زبردست شکست سے حزب اختلاف کے رہنما جیرمی کاربین کا بریگزٹ سے متعلق تمام طرح کی مہمات تقریبا ناکام ہو چکی ہیں۔

اب ایسی صورت میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ برطانیہ یورپین یونین سے علیحدہ ہوکر کس راہ پر جا سکتا ہے۔ کیا بھارت کے ساتھ برطانیہ کے معاشی تعلقات پیدا ہوں گے؟

بغیر کسی معاہدے کے بریگزٹ ہونے کی صورت میں لازمی طور پر برطانیہ اور بھارت ایک دوسرے کے قریب ہوں گے، جیسا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بورس جانسن کو مبارکباد دیتے ہوئے دونوں ممالک کے قریب آنے کی بات بھی کہی تھی۔

کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بورس جانسن بریگزٹ کے حامی رہے ہیں، اور اس انتخاب میں انہیں بریگزٹ کے لیے ہی ووٹ ملے ہیں، اس لیے برطانیہ ہر حال میں یورپین یونین سے الگ ہو جائے گا۔ اور ماہرین کا ماننا ہے کہ ہارڈ بریگزٹ یعنی بغیر کسی معاہدے کے بریگزٹ ہونے کے امکانات زیادہ نظر آ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ بریگزٹ کے سبب دو وزرائے اعظم کو اپنے عہدوں سے برخواست ہونا پڑا ہے۔ اب جبکہ بریگزٹ کی آخری تاریخ 31 جنوری سنہ 2020 ہے، تو ایسے میں یہ دیکھنے والی بات ہو گی کہ بریگزٹ کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے، اور اس بریگزٹ سے کس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔

Intro:Body:

'کشمیر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ خدمات بہت جلد بحال ہوں گی'

کشمیر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ خدمات بہت جلد بحال ہوں گی، شہریت ترمیمی قانون کسی کے خلاف نہیں: رام مادھو



سری نگر، 26 دسمبر (یو این آئی) بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ وادی کشمیر کی صورتحال کا وقت وقت پر جائزہ لیا جارہا ہے اور یہاں براڈ بینڈ انٹرنیٹ خدمات کی بحالی بہت جلد متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی علاقائی جماعتوں کے لیڈران کی نظربندی سے رہائی ایک جاریہ عمل ہے اور صورتحال میں مزید بہتری آنے پر دیگر لیڈران کو بھی رہا کیا جائے گا۔

رام مادھو جو جمعرات کو یہاں ٹی آر سی گرائونڈ میں ریل کشمیر فٹ بال کلب اور چنئی سٹی فٹ بال کلب کے درمیان کھیلے جانے والے آئی لیگ مقابلے کو دیکھنے کی غرض سے آئے تھے، نے ان باتوں کا اظہار ایک پریس کانفرنس میں کیا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جموں وکشمیر کو دفعہ 371 کے تحت خصوصی اختیارات دیے جائیں گے، تو ان کا جواب تھا: 'میری جانکاری میں ایسا کچھ نہیں ہے'۔

مسٹر مادھو نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کسی کے خلاف نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں اور کچھ فرقہ پرست طاقتوں سی اے اے اور این پی آر کے معاملے پر جھوٹا پروپیگنڈا کررہی ہیں۔

بی جے پی قومی جنرل سکریٹری نے وادی کشمیر میں پانچ اگست سے بند انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: 'سیکورٹی صورتحال کا وقت وقت پر جائزہ لیا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ خدمات بھی جلد بحال ہوں گی۔ ہمیں توقع ہے کہ خدمات کو آہستے آہستے بحال کیا جائے گا'۔

انہوں نے علاقائی جماعتوں کے نظربند لیڈران کی رہائی پر کہا: 'ان کی رہائی ایک جاریہ عمل ہے۔ کچھ لیڈران کو رہا کیا جاچکا ہے۔ وقت وقت پر سیکورٹی کا جائزہ لینے کے بعد مزید لیڈران کی رہائی کا فیصلہ لیا جائے گا'۔

رام مادھو نے کہا کہ پانچ اگست کے فیصلوں کے پیش نظر جموں وکشمیر میں کچھ احتیاطی تدابیر اٹھائے گئے تھے۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مجھے امید ہے کہ صورتحال میں بہت جلد مزید بہتری آئے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا: 'حکومت ہند کشمیر کی صورتحال کا مسلسل جائزہ لے رہی ہے۔ کچھ روز قبل ہی جموں وکشمیر یوٹی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کی نئی دہلی میں وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ ہوئی۔ یہ میٹنگ جو چھ گھنٹوں تک چلی، کی صدارت وزیر داخلہ امت شاہ جیت نے کی۔ صورتحال میں مزید بہتری آنے پر دیگر ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے'۔

رام مادھو نے شہریت ترمیمی قانون پر کہا کہ یہ کسی بھی کیمونٹی کے خلاف نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'بھارت سرکار نے ایک دو اہم قوانین بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک شہریت ترمیمی قانون ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد سے کچھ طاقتوں نے ملک میں ایک جھوٹ پر مبنی مہم چلاکر لوگوں کو تشدد پر بھڑکانے کی کوششیں کیں۔ میں ملکی عوام کو یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ قانون کسی کے خلاف نہیں ہے۔ جو پروپیگنڈا ہورہا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی والا قانون ہے بالکل جھوٹ ہے۔ جو رفیوجی کسی مخصوص وجہ سے بھارت آئے ہیں اس سے ان لوگوں کو شہریت ملے گی۔ یہ قانون بنانے کی کوشش 1947 سے جاری تھی'۔

ان کا مزید کہنا تھا: 'میں لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو بھِی اپوزیشن جماعتیں اور کچھ فرقہ پرست طاقتیں ملک میں تشدد اور بدامنی پھیلا رہی ہیں، ان کو ان کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔ یہ قانون سب کو پڑھنا چاہیے۔ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جو کسی مخصوص مذہب کے خلاف ہے'۔

این پی آر کے متعلق ایک سوال کے جواب میں مسٹر مادھو نے کہا: 'نیشنل پیپلز رجسٹر سرکاری کی ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس معاملے پر بھی مسئلہ کھڑا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ کوئی شہریت سے متعلق رجسٹر نہیں ہے بلکہ یہ مردم شماری کا ایک حصہ ہے'۔

انہوں نے کہا: 'اس پر تشدد کرنے والے ملک کے غریبوں کے مفاد کے خلاف کام کررہے ہیں۔ سرکار کو بدنام کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ہم لوگوں کو سچ سے آگاہ کرنے کا کام جاری رکھیں گے'۔

Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.