غیر ملکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق مذکورہ اعلان امریکہ کے ایسے نگراں ادارے کی جانب سے سامنے آیا ہے جو جنگ زدہ ملک میں سیکورٹی صورتحال کی نگرانی کرتا ہے۔
خیال رہے کہ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ بندی پر مذاکرات جاری ہیں جن میں امریکی فوج کے محفوظ انخلا اور طالبان کی جانب سے افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی جارہی ہے۔
طالبان کی جانب سے اپریل کے آغاز میں موسم بہار کے حملوں کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس اعلان سے قبل ہی چند ہفتوں کے دوران پورے افغانستان میں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں متعدد شہری اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان تعمیر نو (ایس آئی جی اے آر) نے 30 اپریل کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ امریکی فوج نے نگراں ادارہ کو بتایا ہے کہ وہ اب افغانستان میں حکومتی فورسز اور طالبان کے زیر اثر علاقوں میں ’ٹریکنگ‘ نہیں کرے گی۔
افغانستان میں امریکی فورسز کے ترجمان نے بتایا کہ ناٹو سپورٹ مشن (آر ایس) نے یہاں افغان طالبان اور حکومت کے زیر اثر علاقوں کی نگرانی کرنا چھوڑ دی جبکہ انٹیلیجنس کمیونٹی اپنے طور پر یہ کام کر رہی ہے۔
تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی کی تشخص کا عمل جاری رہے گا یا پھر یہ بھی رک جائے گا؟
ایس آئی جی اے آر کے سربراہ نے کہا کہ ’’یہ واضح ہے کہ امریکہ کے ٹیکس دہندہ گان کے لیے اندازہ لگانے کے لیے بھی معلومات نا مکمل ہے کہ آیا ان کی افغانستان میں سرمایہ کاری کامیاب ہوئی ہے یا نہیں؟‘
خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت کا ملک کے 53.8 فیصد علاقے پر مکمل کنٹرول ہے جہاں ملک کی تقریباً 63.5 فیصد آبادی موجود ہے جبکہ دیگر علاقے طالبان کے زیر اثر ہیں۔