پیرس میں ایک نوعمر لڑکی کو سائبر دھمکی یا موت کی دھمکی دینے کے معاملے میں تیرہ افراد پر مقدمہ چل رہا ہے۔ وہ لڑکی اب اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے، اس نے آن تبصرے میں اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
فرانس میں رواں سال ہراساں کرنے اور امتیازی سلوک سمیت جرائم پر آن لائن قانونی چارہ جوئی کے لئے تخلیق کردہ نئے دائرہ اختیار کے تحت یہ پہلا مقدمہ ہے۔
اگر آن لائن ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہو جاتا ہے تو ملزمین جن کی عمر 18 سے 35 برس ہے اور وہ فرانس کے مختلف علاقے سے ہیں، کو دو سال کی قید اور 30 ہزار یورو کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
13 میں سے کچھ پر آن لائن قتل کی دھمکیوں کا بھی الزام ہے، جو ایک ایسا جرم جس میں زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور 45،000 یورو تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
نوجوان خاتون جس کی شناخت میلہ کے طور پر ہوئی ہے، اس نے گزشتہ سال اسلام اور قرآن پر تنقید کرتے ہوئے ویڈیو بنایا تھا اور اسے انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر پوسٹ کیا تھا، جو بہت زیادہ وائرل ہوا تھا۔
اس کے نتیجے میں اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں اور دیگر آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا اور اسے پولیس تحفظ میں رکھا گیا اور اس کے اسکول بدلے گئے۔
فرانسیسی حکومت کے مساوات کے وزیر نے اس وقت سائبر دھمکیوں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا تھا اور صدر ایمانوئل میکرون نے میلہ کے ذریعہ کئے گئے "توہین رسالت" کا دفاع کیا تھا۔
فرانس میں آزادی اظہار رائے کو ایک بنیادی حق سمجھا جاتا ہے اور یہاں توہین رسالت جرم نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس کے صدر کو ایک شخص نے تھپڑ رسید کیا
فرانسیسی مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ملک غیر مذہبی طور پر ان کے مذہبی رواج کو بدنام کرتا ہے۔
اس مقدمے کی سماعت نومبر میں نوعمر کے ٹِک ٹاک ویڈیو کے ردِعمل پر مرکوز ہے۔
ملزم میں سے ایک نے دھمکی دی تھی کہ وہ اس لڑکی کو ایک دوسرے سیموئل پیٹی میں تبدیل کردے گا، جس کا اکتوبر میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے دکھانے پر سر قلم کردیا گیا تھا۔
جنوری 2020 میں میلہ کی ابتدائی ویڈیو کے بعد اس کے خلاف نسلی منافرت پر اکسانے کے لئے قانونی شکایت درج کی گئی تھی۔ لیکن تحقیقات کے دوران ثبوت کے فقدان کی بنیاد پر اسے چھوڑ دیا گیا۔