عراق کے مہاجر کیمپوں میں مقیم یزیدی باشندوں کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت اور کردستان کی علاقائی حکومت کے مابین حالیہ معاہدہ ان کے لئے وطن واپس جانے کے لئے کافی نہیں ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں بغداد اور اربیل نے شمالی عراق کے ضلع سنجار میں انتظامی معاملات اور سلامتی امور سے متعلق معاہدہ کیا گیا تھا۔
اس معاہدے میں سنہ 2015 میں شدت پسند تنظیم 'داعش' سے بازیافت ہونے کے بعد اس ضلع پر کنٹرول حاصل کرنے والے مسلح گروہوں کو اپنا کنٹرول چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاپولر موبلائزیشن فورسز اور کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی سنجار سے دستبردار ہونے والے مسلح گروہوں میں شامل ہیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان فریقین میں سے کسی نے بھی اس معاہدے سے اتفاق کیا ہے یا نہیں۔
اس معاہدے کے تحت مہاجر کیمپوں میں رہنے والے 3 لاکھ 60 ہزار یزیدی باشندوں کو سنہ 2014 سے بے گھر ہونے کے بعد وطن واپس ہونے کا موقع ملے گا۔ حالانکہ بے گھر یزیدیوں کا کہنا ہے کہ یہ سودا خود ہی کافی نہیں ہے۔
دوہوک کے شرعیہ کیمپ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے یزیدی شخص رِضگو شارو نے کہا کہ 'اگر وہاں سیکیورٹی یا سروسز نہیں ہیں، تو ہم ہر وقت فرار ہونے کے لیے اپنا سامان پیٹھ پر نہیں رکھ سکے۔ اگر حفاظت اور استحکام نہیں ہے تو ہم واپس نہیں جائیں گے'۔
کیمپ میں موجود دیگر افراد نے ان کی زندگی اور ساز و سامان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کے معاوضے کا مطالبہ کیا۔
ایک دوسرے مہاجر نے کہا کہ 'ہمارے مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ وہاں کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ کم از کم وہاں کوئی ہوتا، جو ہماری مدد کرتا، لیکن وہاں کوئی بھی ہماری مدد کرنے والا نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2014 میں سنجار کو داعش کے شدت پسندوں نے ختم کر دیا تھا۔ گاوں اور مذہبی مقامات کو تباہ کر دیا تھا۔ ہزاروں خواتین اور بچوں کو اغوا کرنے سے پہلے ان کے مردوں کو قطار میں کھڑا کر کے گولی مار دی تھی۔