ETV Bharat / international

یہودی اور مسلم خواتین کی نئی راہیں، نیا انداز

موجودہ دور میں اسلام اور یہودیت دونوں مذاہب کی خواتین میں اپنے اپنے روایات سے ہٹنے کا حوصلہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تلمود کے مطالعے کے آخری میراتھن میں جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں یہودی خواتین حصہ لے رہی ہیں، تو وہیں دوسری جانب غزہ کی مسلم لڑکیاں 'اسکیٹ بورڈنگ' کی طرف راغب ہو رہی ہیں

author img

By

Published : Jan 12, 2020, 12:02 AM IST

یہودی اور مسلم خواتین کی نئی راہیں، نیا انداز
یہودی اور مسلم خواتین کی نئی راہیں، نیا انداز

اسرائیل میں یہودی خواتین کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی روایت کو توڑ کر اپنی مذہبی کتاب 'تلمود' کی تلاوت کر رہی ہیں۔ کیوں کہ تلمود کی تلاوت اور دیگر مذہبی کاموں کو انجام دینا عموما مردوں کا کام تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اب وقت بدل رہا ہے۔

ویڈیو

خاتون ربی سیلی مائر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ربینکل کمنٹری کے مطالعے کو منانا بے حد متحرک اور ترقی پذیر لمحہ ہے۔ ذاتی طور پر وہ اس سے بہت لطف اندوز ہوتی ہیں، یہ ایک پرجوش تجربہ ہے، جس میں سبھی خواتین یکجا ہو کر تورات کو گہرائی سے پڑھتی ہیں، اور خدا کے پیغام کو زندہ رکھتی ہیں۔

اسی طرح کی ایک دوسری تصویر فلسطین کے غزہ کی ہے، جہاں فلسطینی یعنی مسلم خواتین نے بھی اپنی روایات کو توڑ کر آگے بڑھنے کی پہل کی ہے۔

موجودہ دور میں اسلام اور یہودیت دونوں مذاہب کی خواتین میں اپنے اپنے روایات سے ہٹنے کا حوصلہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تلمود کے مطالعے کے آخری میراتھن میں جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں یہودی خواتین حصہ لے رہی ہیں، تو وہیں دوسری جانب غزہ کی مسلم لڑکیاں 'اسکیٹ بورڈنگ' کی طرف راغب ہو رہی ہیں، حالانکہ عرب اس کو ایک مخصوص جنس اور طبقے سے منسلک مانتے ہیں۔

اسکیٹ بورڈنگ سیکھنے والی لڑکی ریحال کریما کا کہنا ہے کہ یہ ان کا نیا مشغلہ ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہی اسے پسند کرتی رہی ہیں، حال ہی میں معلوم ہوا کہ غزہ میں اس کی ٹرینگ دی جا رہی ہے، اس لیے انہوں نے یہاں جوائن کیا ہے۔

غزہ میں اسکیٹ بورڈنگ سیکھنے والی مسلم نوجوان لڑکیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔اور وہ اپنی روایتی لباس سے قطع نظر ماڈرن لباس سے بھی گریز نہیں کرتی ہیں۔ اور دنیا میں ایک نئی روایت کو جنم دے رہی ہیں۔

اٹالین کلچرل ایکسچنج کی ڈائریکٹر کارویلی کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ خاص طور پر ان دو ہفتوں میں اطالویوں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ وہ داخل ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تر مرد اور خواتین نوجوان ہیں۔ وہ غزہ میں اس لیے آتے ہیں، کیونکہ وہ غزہ کے اندر موجود انسانیت سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جب برسوں قبل تلمود کو روزانہ ایک صفحہ پڑھنے کی روایت شروع کی گئی تھی، تو اس وقت اسے مردوں کی اجارہ داری کی طرح دیکھا جا رہا تھا، لیکن اب اس میں خواتین کی بڑھتی تعداد سے قدیم روایت کی دیواریں گرتی نظر آ رہی ہیں۔

ایک یہودی خاتون رونیت کاو نے بتایا کہ وہ یہاں اپنی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے آئی ہیں۔ اسے زندگی کا ایک اہم حصہ بنانے کی غرض سے آئی ہیں۔ اس انقلابی قدم کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کے لیے آئی ہیں۔

عموما شدت پسند سمجھے جانے والے دونوں مذاہب کے روایات کو توڑتی مسلم اور یہودی خواتین نے دنیا میں ایک نئے قسم کے انقلاب کی شروعات کی ہے۔

اسرائیل میں یہودی خواتین کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی روایت کو توڑ کر اپنی مذہبی کتاب 'تلمود' کی تلاوت کر رہی ہیں۔ کیوں کہ تلمود کی تلاوت اور دیگر مذہبی کاموں کو انجام دینا عموما مردوں کا کام تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اب وقت بدل رہا ہے۔

ویڈیو

خاتون ربی سیلی مائر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ربینکل کمنٹری کے مطالعے کو منانا بے حد متحرک اور ترقی پذیر لمحہ ہے۔ ذاتی طور پر وہ اس سے بہت لطف اندوز ہوتی ہیں، یہ ایک پرجوش تجربہ ہے، جس میں سبھی خواتین یکجا ہو کر تورات کو گہرائی سے پڑھتی ہیں، اور خدا کے پیغام کو زندہ رکھتی ہیں۔

اسی طرح کی ایک دوسری تصویر فلسطین کے غزہ کی ہے، جہاں فلسطینی یعنی مسلم خواتین نے بھی اپنی روایات کو توڑ کر آگے بڑھنے کی پہل کی ہے۔

موجودہ دور میں اسلام اور یہودیت دونوں مذاہب کی خواتین میں اپنے اپنے روایات سے ہٹنے کا حوصلہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تلمود کے مطالعے کے آخری میراتھن میں جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں یہودی خواتین حصہ لے رہی ہیں، تو وہیں دوسری جانب غزہ کی مسلم لڑکیاں 'اسکیٹ بورڈنگ' کی طرف راغب ہو رہی ہیں، حالانکہ عرب اس کو ایک مخصوص جنس اور طبقے سے منسلک مانتے ہیں۔

اسکیٹ بورڈنگ سیکھنے والی لڑکی ریحال کریما کا کہنا ہے کہ یہ ان کا نیا مشغلہ ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہی اسے پسند کرتی رہی ہیں، حال ہی میں معلوم ہوا کہ غزہ میں اس کی ٹرینگ دی جا رہی ہے، اس لیے انہوں نے یہاں جوائن کیا ہے۔

غزہ میں اسکیٹ بورڈنگ سیکھنے والی مسلم نوجوان لڑکیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔اور وہ اپنی روایتی لباس سے قطع نظر ماڈرن لباس سے بھی گریز نہیں کرتی ہیں۔ اور دنیا میں ایک نئی روایت کو جنم دے رہی ہیں۔

اٹالین کلچرل ایکسچنج کی ڈائریکٹر کارویلی کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ خاص طور پر ان دو ہفتوں میں اطالویوں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ وہ داخل ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تر مرد اور خواتین نوجوان ہیں۔ وہ غزہ میں اس لیے آتے ہیں، کیونکہ وہ غزہ کے اندر موجود انسانیت سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جب برسوں قبل تلمود کو روزانہ ایک صفحہ پڑھنے کی روایت شروع کی گئی تھی، تو اس وقت اسے مردوں کی اجارہ داری کی طرح دیکھا جا رہا تھا، لیکن اب اس میں خواتین کی بڑھتی تعداد سے قدیم روایت کی دیواریں گرتی نظر آ رہی ہیں۔

ایک یہودی خاتون رونیت کاو نے بتایا کہ وہ یہاں اپنی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے آئی ہیں۔ اسے زندگی کا ایک اہم حصہ بنانے کی غرض سے آئی ہیں۔ اس انقلابی قدم کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کے لیے آئی ہیں۔

عموما شدت پسند سمجھے جانے والے دونوں مذاہب کے روایات کو توڑتی مسلم اور یہودی خواتین نے دنیا میں ایک نئے قسم کے انقلاب کی شروعات کی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.