چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ چین افغان عوام کے حقوق کا احترام کرتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی قسمت اور منزل کا تعین کریں۔ طالبان کا افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے ایک دن بعد چینی حکومت نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ 'دوستانہ تعلقات' استوار کرنے کے لیے تیار ہے۔
میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چُن یِنگ نے کہا کہ چین افغان عوام کے حقوق کا احترام کرتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی منزل اور قسمت کا تعین کریں اور وہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
ہوا چُن یِنگ نے یہ بھی کہا کہ کابل میں چینی سفارت خانہ اب بھی کام کررہا ہے۔ زیادہ تر چینی شہری چین واپس جانے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ سفارت خانہ صورتحال پر گہری نظر رکھے گا اور جو لوگ رہائش کا انتخاب کرتے ہیں انہیں ضروری سہولیات اور خدمات پیش کریں گے۔
اسی درمیان افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے 'تِھنک ٹینک کے ماہر ڈاکٹر سورو کمل دتہ نے کہا کہ بھارت کو طالبان کے خلاف سخت اور مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے اور عالمی برادری، خاص طور پر روس، یورپی یونین، وسطی ایشیائی ممالک اور ایران کو اس کے خلاف متحرک کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر سورو کمل دتہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'امریکہ سے کوئی توقعات نہیں ہونی چاہئے کیونکہ سارے مسائل خود امریکہ کے پیدا کردہ ہیں۔ اگر ہم نے ابھی سختی نہیں کی تو کل افغان طالبان کے طور پر یہ ہمارے لیے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے دوران چین نے طالبان کے ساتھ غیر سرکاری تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
واضح رہے کہ چین کی جانب سے طالبان کی حمایت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی صدارت بھارت کے پاس ہے اور اس مسئلے کو ہنگامی اجلاس میں اٹھایا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس جنہوں نے بار بار افغان شہریوں کے خلاف تشدد کی مذمت کی ہے سے ہنگامی اجلاس میں بات کرنے کی توقع ہے۔ ہنگامی اجلاس ایسٹونیا اور ناروے نے طلب کیا تھا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں جس طرح سے بیان کیا جارہا ہے کہ افراتفری اور خوف و ہراس کا ماحول ہے کیونکہ عام شہری کابل چھوڑ کر جارہے ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف ایک ماہ تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد طالبان نے اتوار کو کابل پر قبضہ کرلیا۔