کورونا وائرس کے پھیلاو کے سبب جہاں دنیا بھر میں مختلف معاملات کی نوعیت میں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے، وہیں عالمی سطح پر اسلام کے پیروکاروں کے درمیان حج کی ادائیگی سے متعلق بھی تشویش کی کیفیت تھی۔
لوگوں کی زبان پر حج کی ادائیگی کے بارے میں سوالات تھے کہ کیا رواں برس کا حج ممکن ہو سکے گا؟
اس کے جواب میں سب سے پہلے سعودی عرب کی جانب سے سرکاری طور پر کہا گیا کہ دنیا بھر کے مسلمان رواں برس جولائی میں فریضہ حج کی ادائیگی کا ارادہ روک کر رکھیں۔
سعودی عرب کے وزیر برائے عمرہ و حج ڈاکٹر محمد صالح بن طاہر بنتن نے 31 مارچ کو سرکاری ٹی وی 'الاخباریہ' سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم نے دنیا بھر میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہا ہے کہ صورتِ حال واضح ہونے تک حج کی تیاریاں روک دیں'۔
اس بیان کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان بحث و مباحثہ کا دور شروع ہو گیا اور حج کی ادائیگی اور تعطل سے متعلق مختلف ادوار کو بھی یاد کیا جانے لگا۔
اسی مناسبت سے اس رپورٹ میں یہ معلومات دی جانے کی ایک کوشش ہے کہ حج کو معطل کرنے کا فیصلہ پہلی بار نہیں، بلکہ اس سے قبل بھی گذشتہ صدیوں کے دوران متعدد بار ایسے حالات پیدا ہوتے رہے ہیں، جن کے سبب حج کی ادائیگی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔
شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرکائیوز (درہ) کے ذریعے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 930 عیسوی میں عباسی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اسماعیلی شیعہ کی قرامطہ شاخ نے حج کے آٹھویں روز حاجیوں پر حملہ کر دیا تھا، جس کے سبب تاریخ میں پہلی بار حج کی ادائیگی نہیں ہو سکی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق قرامطیان نے 30 ہزار سے زیادہ حجاج کرام کو قتل کر دیا تھا، کیوں اس طبقے کا ماننا تھا کہ حج بت پرستی کا عمل ہے۔ قتل کے بعد لاشوں سے زمزم کنویں کی بے حرمتی کی گئی اور یہ لوگ حجرِ اسود کو مکہ سے اپنے دارالحکومت (موجودہ قطیف) لے کر چلے گئے تھے۔ اس حادثے کے سبب آئندہ 10 برسوں تک حج کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔
سنہ 968 عیسوی میں دوسری بار حج کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔ اس رپورٹ میں ابن کثیر کی کتاب 'البدایہ والنھایہ' کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مکہ میں ایک بیماری پھیلی ہے، جس کے سبب بہت سارے حجاج کرام ہلاک ہو گئے ہیں۔ اسی دوران حاجیوں کو مکہ لے جانے والے اونٹ پانی کی قلت کے سبب ہلاک ہو گئے۔
درہ کی رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگ جو بچ کر مکہ مکرمہ پہنچ بھی گئے، وہ حج کے بعد زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکے۔
تیسری بار سنہ 1000 عیسوی میں حج کی ادائیگی میں خلل واقع ہوئی۔ اس برس جو افراد مکہ حج کرنے آئے تھے ان میں بڑی تعداد مصری باشندوں کی تھی، لیکن وہ اس سفر کے متحمل نہ ہو سکے کیونکہ اس برس مصر میں مہنگائی اپنے عروج پر تھی۔
درہ کی رپورٹ کے مطابق 29 برس بعد بھی مشرق یا مصر سے کوئی شخص حج کے لیے نہیں آیا اور سنہ 1030 عیسوی میں صرف چند عراقی زائرین ہی حج کے لیے مکہ پہنچ سکے۔
اس واقعے کے 9 برس بعد عراقی، مصری، وسط ایشیائی اور شمالی عربی مسلمان حج کرنے سے قاصر رہے۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اور فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔
اسی طرح سنہ 1099 میں بھی جنگوں کے نتیجے میں پوری مسلم دنیا میں خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ ہو سکی۔ سنہ 1099 میں صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، عرب خطے میں مسلم رہنماؤں میں اتحاد کے فقدان کے باعث مسلمان حج ادا کرنے مکہ نہ آ سکے۔
سنہ 1168 میں مصریوں اور کرد کمانڈر اسد الدین کے درمیان تنازعے کی وجہ سے مصری مسلمانوں کو حج کی اجازت نہ مل سکی۔
اسی طرح 13 ویں صدی میں بھی حج نہیں ہو سکا۔ درہ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1256 سے 1260 کے دوران کوئی بھی شخص خطۂ حجاز سے حج کی ادائیگی نہ کر سکا۔
سنہ 1798 سے 1801 کے دوران فرانسیسی رہنما نیپولین بوناپارٹ نے مصر اور شام کے علاقوں میں فوجی کارروائیاں کیں جن کی وجہ سے مکہ کے راستے عازمین کے لیے غیر محفوظ ہو گئے۔
اس طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ اب تک متعدد ایسے مواقع ہیں جب حج کی ادائیگی نہیں ہو سکی ہے۔ اس لیے موجودہ حالات کے پیش نظر اگر حج متاثر ہوتا ہے تو یہ ماضی کی طرح ہی ایک واقعہ گردانہ جا سکتا ہے۔
حالانکہ تازہ ترین صورتحال کے مطابق سعودی عرب کے حج و عمرہ کے وزیر محمد بنتن نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس کا حج معطل کرنے کے بجائے محدود تعداد کے ساتھ ادا کیا جائے گا۔