ETV Bharat / international

قندھار ہائی جیکنگ کے وہ خوفناک سات دن

ایئر انڈیا کا ایک جہاز آج سے 20 برس پہلے ہائی جیک ہو گیا تھا۔ لیکن یہ کیسے ہوا تھا، اور اس کے عوض بھارت کو کتنی بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ آئیے اس کو شروعات سے سمجھتے ہیں۔

متعلقہ تصویر
متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Dec 24, 2019, 11:51 PM IST

آج سے ٹھیک 20 برس قبل ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے بھارت کی تاریخ میں ایک خوفناک باب کا اضافہ کر دیا تھا، 20 برسوں کے بعد بھی بھارت میں اسے دردناک کہانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آخر یہ کون سا حادثہ تھا، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہ سبھی کچھ بتائیں گے اس خاص رپورٹ میں۔

در اصل ائیر انڈیا کا ایک جہاز آج سے 20 برس پہلے ہائیجیک ہو گیا تھا۔ لیکن یہ کیسے ہوا تھا، اور اس کے عوض بھارت کو کتنی بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ آئیے اس کو شروعات سے سمجھتے ہیں۔

تاریخ 24 دسمبر، جمعے کا دن وقت تھا 4 بج کر 39 منٹ شام، اور سال تھا سنہ 1999 جگہ، نیپال کا تربھون انٹرنیشنل ایئرپورٹ۔

قندھار ایئرپورٹ کی تصویر
قندھار ایئرپورٹ کی تصویر

ائیر انڈیا کے جہاز آئی سی 814 کو نیپال سے دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس کی پرواز کی سبھی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔ جہاز کانٹھمانڈو کے 'تِربھون انٹرنیشنل ائیر پورٹ' سے دہلی کے لیے روانہ ہوا، لیکن تبھی جہاز میں 5 ایسے لوگ نمودار ہوئے جو ہتھیاروں سے لیس تھے، انہوں نے جہاز کا روٹ ہی بدل دیا، در اصل جہاز ہائی جیک ہو چکا تھا۔

ویڈیو

معاملہ کچھ ایسا تھا کہ جہاز کے اندر پانچوں ہائجیکرز نے اپنی اپنی پوزیشن لے لی، ان میں سے ایک نے کاکپیٹ میں آکر پائلٹ دیوی شرن پر بندوق تان دی، اور ان سے جہاز کو دہلی کے بجائے پاکستان کے لاہور کی طرف موڑنے کو کہا، اس دوران باقی چاروں نے جہاز کے اندر سبھی کو خوف سے نڈھال کر دیا تھا۔

پائلٹ دیوی شرن نے ایندھن کم ہونے کا بہانہ بنایا، اور کہا کہ وہ ایندھن کم ہونے کے سبب لاہور نہیں جا سکتے۔ در اصل دیوی شرن بھارت کی حدود میں ہی رہنا چاہتے تھے تاکہ بھارت کی سکیوریٹی ان کی مدد کر سکے، اسی دوران دیوی شرن نے جہاز کی رفتار 40 فیصد دھیمی کر دی اور ساتھ ہی ایمرجنسی کا بٹن بھی دبا دیا تھا، جس سے جہاز کے ہائیجیک ہونے کی خبر بھارتی انتظامیہ کو پہنچ چکی تھی، اس دوران وہ ہائیجیکرز کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ، وہ پنجاب کے امرتسر ائیر پورٹ پر رُک کر ایندھن لے کر آگے کا سفر طے کر سکیں گے۔

ہائیجیک کی ابتدا اور اس کی انتہا کا مکمل خاکہ
ہائیجیک کی ابتدا اور اس کی انتہا کا مکمل خاکہ

آخر کار جہاز کو 7 بج کر ایک منٹ پر امرتسر ائیر پورٹ پر لینڈ کرایا گیا۔ اس دوران پنجاب پولیس اور اسنیپ شوٹر کی مدد سے جہاز کو ہائجیکرز کے قبضے سے چُھڑایا جا سکتا تھا، لیکن دہلی سے این ایس جی کمانڈوز کو بھیجے جانے کی بات کہی گئی، اور کمانڈوز کے بھیجے جانے تک ایندھن دینے میں تاخیر کی حکمت عملی اختیار کی گئی، لیکن اس تاخیر سے ہایجیکرز کو شک ہونے لگا۔ آخر کار وہ پائلٹ پر بغیر ایندھن لیے ہی جہاز اڑانے کے لیے دباو بنانے لگے، اور 20 سے الٹی گنتی شروع کر دی گئی۔ دیوی شرن کے پاس جہاز کو اڑانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے لاہور ائیرپورٹ کے لیے دوبارہ فلائٹ کو ٹیک آف کر دیا، لیکن پاکستان نے لاہور میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی، اور ائیرپورٹ کی سبھی لائٹز اور نیوی گیشنز کو بھی بند کر دیا، تاکہ پائلٹ کو رن وے نظر نہ آ سکے۔ پاکستان ہائی جیکنگ اور اس سے ابھرنے والے تنازعے سے خود کو دور رکھنا چاہتا تھا۔

اس دوران ہائجیکرز نے کچھ مسافروں کو چاقو مار کر زخمی کر دیا تھا۔ ان زخمیوں میں رُپِن کتیال نامی 27 سالہ ایک نوجوان تھا، جن کی چند روز قبل ہی شادی ہوئی تھی، اور وہ نیپال میں ہنیمون منا کر بھارت لوٹ رہے تھے، انہیں اس قدر زخمی کر دیا گیا تھا کہ ان کے جسم سے مسلسل خون بہ رہا تھا۔

بالآخر جہاز مسلسل ہوا میں پرواز کرتا رہا۔ اور اس کا ایندھن بہت ہی تیزی سے ختم ہو رہا تھا، تبھی دیوی شرن نے کہا کہ اگر ہمیں لینڈنگ کی اجازت نہ ملی تو ہر حال میں جہاز کریش کر جائے گا، اور ہم سب ہلاک ہو جائیں گے۔

ایسی صورت میں پائلٹ نے لاہور میں اوپر سے کچھ روشنی دیکھنے کے بعد ائیرپورٹ سمجھ کر لینڈ کرنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی جہاز نیچے آیا، پائلٹ کے ہوش اڑ گئے، کیوں کہ وہ ایئر پورٹ نہیں، بلکہ وہ روڈ کی ٹریفک کی روشنی تھی۔ اس طرح کپتان نے دوبارہ جہاز کو اوپر لے لیا، اور ایک بڑا حادثہ ہونے سے بچ گیا۔

لیکن سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ایندھن بہت کم تھا۔ اور کسی بھی وقت جہاز کریش ہو سکتا تھا۔ تبھی درخواست کے بعد لاہور ائیرپورٹ انتظامیہ نے محض اتنی اجازت دے دی کہ جہاز کو ایندھن بھرنے کا موقع دیا جائے گا، اور فوری طور پر یہاں سے ٹیک آف کرنا ہو گا۔

اجازت ملنے پر جہاز لینڈ ہوا اور ری فِل کے فورا بعد آئی سی 814 دوبارہ ایک انجان سفر پر روانہ ہو گیا۔ ہائیجیکرز نے جہاز دبئی کی طرف موڑنے کو کہا، دیوی شرن کبھی ائیر ٹریفک کنٹرولر کے اشاروں پر کام کیا کرتے تھے، لیکن آج وہ اس قدر مجبور تھے کہ وہ سارا کام ہائیجیکرز کے اشاروں پر کر رہے تھے۔

جہاز دوسرے روز یعنی 25 دسمبر کو دبئی ائیرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ دبئی پہنچنے سے قبل ہی رات میں رُپن کتیال کی خون بہ جانے کے سبب موت ہو گئی تھی، اور ان کی بیوی رچنا سہگل اس موت سے بے خبر تھیں۔

اس دوران بھارت نے دبئی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ جب تک بھارتی کمانڈوز دبئی نہ پہنچ جائیں، تب تک جہاز کو پرواز کرنے کی اجازت نہ دی جائے، لیکن انتظامیہ نے ایسا کرنے سے منع کر دیا، ہاں البتہ دبئی نے ایندھن دینے کے عوض رُپن کتیال کی لاش اور دیگر زخمیوں کو اتارنے پر ہائجیکرز کو رضامند کر لیا تھا۔

اس طرح دبئی ائیرپورٹ سے ایندھن بھرنے کے بعد ائیر انڈیا کا جہاز آئی سی 814 ایک بار پھر روانہ ہو گیا۔ اب اس کا اگلا ٹھکانہ افغانستان کا کابل تھا، لیکن کابل ایئرپورٹ انتظامیہ نے خبر بھیجی کی کابل کے بجائے قندھار ائیرپورٹ پر لینڈ کرایا جائے۔

یہی وہ دور تھا، جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ آخر کار صبح 8 بج کر 10 منٹ پر جہاز قندھار ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ ہائجیکرز کو یہاں پہنچ کر اطمینان ہو گیا کہ اب ان کا مقصد حاصل ہو سکے گا۔ تبھی فوری طور پر چاروں طرف سے طالبان نے فلائٹ کو گھیر لیا۔ اور اس طرح جہاز کے سبھی مسافر تقریبا موت کے منہ میں تھے۔

سوال یہ ہے کہ آخر یہ پانچوں کون تھے اور جہاز کو کیوں ہائجیک کیا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پانچوں ہائجیکرز عسکریت پسند تھے۔ اور ان کا مقصد بھارت میں قید اپنے کچھ ساتھیوں کو رہا کرانا تھا۔ اس طرح بھارتی حکومت اور ہائجیکرز کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہو گیا۔ اب جبکہ قندھار میں ان کا ہائجیک شدہ جہاز لینڈ کر گیا تھا، اور ادھر دبئی سے رُپن کتیال کی لاش بھارت پہنچی تو، ادھر بھارت میں ہنگامہ ہو گیا۔

چہار جانب سے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور وزیر خارجہ یشونت سنگھ پر دباو بنایا جانے لگا، کہ انہیں کسی بھی صورت میں 187 بھارتیوں کو رہا کرانا ہو گا۔ آخر کار حکومت نے سخت دباو میں آکر مسافروں کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ اور 27 دسمبر کو وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری وویک کاٹجو، انٹلی جنس بیورو کے اعلی افسر اجیت ڈوبھال اور کچھ دیگر لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم افغانستان کے قندھار کے لیے روانہ ہو گئی۔ 26 دسمبر کی رات کو مسافروں کو کھانا دیا گیا۔ یعنی تقریبا 50 گھنٹوں تک لوگ بھوک اور خوف و حراس کے ماحول میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔

آخر کار نگوشیشن شروع ہوا، پہلے تو ہائجیکرز نے ان سبھی مسافروں کی رہائی کے عوض سجاد افغانی کی لاش، مولانا مسعود اظہر سمیت 36 قیدیوں کی رہائی اور 20 کروڑ امریکی ڈالر کا مطالبہ کیا۔ لیکن طالبان کے کہنے پر سجاد طالبانی کی لاش اور پیسے کا مطالبہ چھوڑ دیا گیا۔

اور آخر میں طے ہوا کہ مولانا مسعود اظہر، مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر شیخ کو رہا کیا جائے گا۔ لیکن 29 دسمبر کو ہائیجیکرز نے اعلان کر دیا کہ یہ بات چیت ناکام ہو گئی ہے۔ 30 دسمبر کو صبح یہ اعلان کیا گیا کہ، اگر بھارت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتا ہے، تو وہ ایک ایک کو قتل کرنا شروع کر دیں گے۔

بالآخر 31 دسمبر کو خبر آئی کہ بھارت نے ان ہائجیکرز کے مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح بھارت کے وزیر خارجہ یشونت سنگھ، مذکورہ تینوں قیدیوں، مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور عمر شیخ کو اپنے ایک خصوصی جہاز میں سوار کر کے قندھار کے لیے روانہ ہو گئے۔ اور آخر کار ان تینوں عسکریت پسندوں کے بدلے ہائیجیک کے 7 روز بعد باقی مسافروں کو رہا کرایا جا سکا۔

لیکن یہ حادثہ اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا، کہ کیا اس سے بہتر کچھ دوسرا سودا ہو سکتا تھا۔ کیا بھارت کی یہ حالت تھی کہ وہ ان ہائجیکرز کا مطالبہ ٹھکرا سکتا تھا، کیا بھارت نے تینوں عسکریت پسندوں کو رہا کر کے بڑی غلطی کر دی تھی، اور سب سے بڑا سوال کہ امرتسر میں ایک اچھا موقع گنوا کر جہاز کو روکنے میں کیوں ناکام رہے، جس کے سبب ایسے حالات پیدا ہوئے تھے۔ اس کا جواب کچھ بھی ہو لیکن فیصلہ صحیح یا غلط حالات کے مطابق ہی لیا گیا تھا۔ اس لیے ان سوالات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی ہے۔

البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مسعود اظہر کی رہائی کے بعد ہی 'جیش محمد' کی داغ بیل پڑی جس نے سنہ 2001 میں بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا اور بعد ازاں کشمیر میں دم توڑتی ہوئی عسکریت پسندی کو زندہ کیا۔ بالاکوٹ کا فضائی حملہ جیش محمد کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کیلئے کیا گیا تھا جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیس برس کے بعد بھی مسعود اظہر کا وجود کس طرح ایک بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔

آج سے ٹھیک 20 برس قبل ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس نے بھارت کی تاریخ میں ایک خوفناک باب کا اضافہ کر دیا تھا، 20 برسوں کے بعد بھی بھارت میں اسے دردناک کہانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آخر یہ کون سا حادثہ تھا، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، یہ سبھی کچھ بتائیں گے اس خاص رپورٹ میں۔

در اصل ائیر انڈیا کا ایک جہاز آج سے 20 برس پہلے ہائیجیک ہو گیا تھا۔ لیکن یہ کیسے ہوا تھا، اور اس کے عوض بھارت کو کتنی بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ آئیے اس کو شروعات سے سمجھتے ہیں۔

تاریخ 24 دسمبر، جمعے کا دن وقت تھا 4 بج کر 39 منٹ شام، اور سال تھا سنہ 1999 جگہ، نیپال کا تربھون انٹرنیشنل ایئرپورٹ۔

قندھار ایئرپورٹ کی تصویر
قندھار ایئرپورٹ کی تصویر

ائیر انڈیا کے جہاز آئی سی 814 کو نیپال سے دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس کی پرواز کی سبھی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔ جہاز کانٹھمانڈو کے 'تِربھون انٹرنیشنل ائیر پورٹ' سے دہلی کے لیے روانہ ہوا، لیکن تبھی جہاز میں 5 ایسے لوگ نمودار ہوئے جو ہتھیاروں سے لیس تھے، انہوں نے جہاز کا روٹ ہی بدل دیا، در اصل جہاز ہائی جیک ہو چکا تھا۔

ویڈیو

معاملہ کچھ ایسا تھا کہ جہاز کے اندر پانچوں ہائجیکرز نے اپنی اپنی پوزیشن لے لی، ان میں سے ایک نے کاکپیٹ میں آکر پائلٹ دیوی شرن پر بندوق تان دی، اور ان سے جہاز کو دہلی کے بجائے پاکستان کے لاہور کی طرف موڑنے کو کہا، اس دوران باقی چاروں نے جہاز کے اندر سبھی کو خوف سے نڈھال کر دیا تھا۔

پائلٹ دیوی شرن نے ایندھن کم ہونے کا بہانہ بنایا، اور کہا کہ وہ ایندھن کم ہونے کے سبب لاہور نہیں جا سکتے۔ در اصل دیوی شرن بھارت کی حدود میں ہی رہنا چاہتے تھے تاکہ بھارت کی سکیوریٹی ان کی مدد کر سکے، اسی دوران دیوی شرن نے جہاز کی رفتار 40 فیصد دھیمی کر دی اور ساتھ ہی ایمرجنسی کا بٹن بھی دبا دیا تھا، جس سے جہاز کے ہائیجیک ہونے کی خبر بھارتی انتظامیہ کو پہنچ چکی تھی، اس دوران وہ ہائیجیکرز کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ، وہ پنجاب کے امرتسر ائیر پورٹ پر رُک کر ایندھن لے کر آگے کا سفر طے کر سکیں گے۔

ہائیجیک کی ابتدا اور اس کی انتہا کا مکمل خاکہ
ہائیجیک کی ابتدا اور اس کی انتہا کا مکمل خاکہ

آخر کار جہاز کو 7 بج کر ایک منٹ پر امرتسر ائیر پورٹ پر لینڈ کرایا گیا۔ اس دوران پنجاب پولیس اور اسنیپ شوٹر کی مدد سے جہاز کو ہائجیکرز کے قبضے سے چُھڑایا جا سکتا تھا، لیکن دہلی سے این ایس جی کمانڈوز کو بھیجے جانے کی بات کہی گئی، اور کمانڈوز کے بھیجے جانے تک ایندھن دینے میں تاخیر کی حکمت عملی اختیار کی گئی، لیکن اس تاخیر سے ہایجیکرز کو شک ہونے لگا۔ آخر کار وہ پائلٹ پر بغیر ایندھن لیے ہی جہاز اڑانے کے لیے دباو بنانے لگے، اور 20 سے الٹی گنتی شروع کر دی گئی۔ دیوی شرن کے پاس جہاز کو اڑانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے لاہور ائیرپورٹ کے لیے دوبارہ فلائٹ کو ٹیک آف کر دیا، لیکن پاکستان نے لاہور میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی، اور ائیرپورٹ کی سبھی لائٹز اور نیوی گیشنز کو بھی بند کر دیا، تاکہ پائلٹ کو رن وے نظر نہ آ سکے۔ پاکستان ہائی جیکنگ اور اس سے ابھرنے والے تنازعے سے خود کو دور رکھنا چاہتا تھا۔

اس دوران ہائجیکرز نے کچھ مسافروں کو چاقو مار کر زخمی کر دیا تھا۔ ان زخمیوں میں رُپِن کتیال نامی 27 سالہ ایک نوجوان تھا، جن کی چند روز قبل ہی شادی ہوئی تھی، اور وہ نیپال میں ہنیمون منا کر بھارت لوٹ رہے تھے، انہیں اس قدر زخمی کر دیا گیا تھا کہ ان کے جسم سے مسلسل خون بہ رہا تھا۔

بالآخر جہاز مسلسل ہوا میں پرواز کرتا رہا۔ اور اس کا ایندھن بہت ہی تیزی سے ختم ہو رہا تھا، تبھی دیوی شرن نے کہا کہ اگر ہمیں لینڈنگ کی اجازت نہ ملی تو ہر حال میں جہاز کریش کر جائے گا، اور ہم سب ہلاک ہو جائیں گے۔

ایسی صورت میں پائلٹ نے لاہور میں اوپر سے کچھ روشنی دیکھنے کے بعد ائیرپورٹ سمجھ کر لینڈ کرنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی جہاز نیچے آیا، پائلٹ کے ہوش اڑ گئے، کیوں کہ وہ ایئر پورٹ نہیں، بلکہ وہ روڈ کی ٹریفک کی روشنی تھی۔ اس طرح کپتان نے دوبارہ جہاز کو اوپر لے لیا، اور ایک بڑا حادثہ ہونے سے بچ گیا۔

لیکن سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ایندھن بہت کم تھا۔ اور کسی بھی وقت جہاز کریش ہو سکتا تھا۔ تبھی درخواست کے بعد لاہور ائیرپورٹ انتظامیہ نے محض اتنی اجازت دے دی کہ جہاز کو ایندھن بھرنے کا موقع دیا جائے گا، اور فوری طور پر یہاں سے ٹیک آف کرنا ہو گا۔

اجازت ملنے پر جہاز لینڈ ہوا اور ری فِل کے فورا بعد آئی سی 814 دوبارہ ایک انجان سفر پر روانہ ہو گیا۔ ہائیجیکرز نے جہاز دبئی کی طرف موڑنے کو کہا، دیوی شرن کبھی ائیر ٹریفک کنٹرولر کے اشاروں پر کام کیا کرتے تھے، لیکن آج وہ اس قدر مجبور تھے کہ وہ سارا کام ہائیجیکرز کے اشاروں پر کر رہے تھے۔

جہاز دوسرے روز یعنی 25 دسمبر کو دبئی ائیرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ دبئی پہنچنے سے قبل ہی رات میں رُپن کتیال کی خون بہ جانے کے سبب موت ہو گئی تھی، اور ان کی بیوی رچنا سہگل اس موت سے بے خبر تھیں۔

اس دوران بھارت نے دبئی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ جب تک بھارتی کمانڈوز دبئی نہ پہنچ جائیں، تب تک جہاز کو پرواز کرنے کی اجازت نہ دی جائے، لیکن انتظامیہ نے ایسا کرنے سے منع کر دیا، ہاں البتہ دبئی نے ایندھن دینے کے عوض رُپن کتیال کی لاش اور دیگر زخمیوں کو اتارنے پر ہائجیکرز کو رضامند کر لیا تھا۔

اس طرح دبئی ائیرپورٹ سے ایندھن بھرنے کے بعد ائیر انڈیا کا جہاز آئی سی 814 ایک بار پھر روانہ ہو گیا۔ اب اس کا اگلا ٹھکانہ افغانستان کا کابل تھا، لیکن کابل ایئرپورٹ انتظامیہ نے خبر بھیجی کی کابل کے بجائے قندھار ائیرپورٹ پر لینڈ کرایا جائے۔

یہی وہ دور تھا، جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ آخر کار صبح 8 بج کر 10 منٹ پر جہاز قندھار ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ ہائجیکرز کو یہاں پہنچ کر اطمینان ہو گیا کہ اب ان کا مقصد حاصل ہو سکے گا۔ تبھی فوری طور پر چاروں طرف سے طالبان نے فلائٹ کو گھیر لیا۔ اور اس طرح جہاز کے سبھی مسافر تقریبا موت کے منہ میں تھے۔

سوال یہ ہے کہ آخر یہ پانچوں کون تھے اور جہاز کو کیوں ہائجیک کیا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پانچوں ہائجیکرز عسکریت پسند تھے۔ اور ان کا مقصد بھارت میں قید اپنے کچھ ساتھیوں کو رہا کرانا تھا۔ اس طرح بھارتی حکومت اور ہائجیکرز کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہو گیا۔ اب جبکہ قندھار میں ان کا ہائجیک شدہ جہاز لینڈ کر گیا تھا، اور ادھر دبئی سے رُپن کتیال کی لاش بھارت پہنچی تو، ادھر بھارت میں ہنگامہ ہو گیا۔

چہار جانب سے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور وزیر خارجہ یشونت سنگھ پر دباو بنایا جانے لگا، کہ انہیں کسی بھی صورت میں 187 بھارتیوں کو رہا کرانا ہو گا۔ آخر کار حکومت نے سخت دباو میں آکر مسافروں کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ اور 27 دسمبر کو وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری وویک کاٹجو، انٹلی جنس بیورو کے اعلی افسر اجیت ڈوبھال اور کچھ دیگر لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم افغانستان کے قندھار کے لیے روانہ ہو گئی۔ 26 دسمبر کی رات کو مسافروں کو کھانا دیا گیا۔ یعنی تقریبا 50 گھنٹوں تک لوگ بھوک اور خوف و حراس کے ماحول میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔

آخر کار نگوشیشن شروع ہوا، پہلے تو ہائجیکرز نے ان سبھی مسافروں کی رہائی کے عوض سجاد افغانی کی لاش، مولانا مسعود اظہر سمیت 36 قیدیوں کی رہائی اور 20 کروڑ امریکی ڈالر کا مطالبہ کیا۔ لیکن طالبان کے کہنے پر سجاد طالبانی کی لاش اور پیسے کا مطالبہ چھوڑ دیا گیا۔

اور آخر میں طے ہوا کہ مولانا مسعود اظہر، مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر شیخ کو رہا کیا جائے گا۔ لیکن 29 دسمبر کو ہائیجیکرز نے اعلان کر دیا کہ یہ بات چیت ناکام ہو گئی ہے۔ 30 دسمبر کو صبح یہ اعلان کیا گیا کہ، اگر بھارت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتا ہے، تو وہ ایک ایک کو قتل کرنا شروع کر دیں گے۔

بالآخر 31 دسمبر کو خبر آئی کہ بھارت نے ان ہائجیکرز کے مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح بھارت کے وزیر خارجہ یشونت سنگھ، مذکورہ تینوں قیدیوں، مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور عمر شیخ کو اپنے ایک خصوصی جہاز میں سوار کر کے قندھار کے لیے روانہ ہو گئے۔ اور آخر کار ان تینوں عسکریت پسندوں کے بدلے ہائیجیک کے 7 روز بعد باقی مسافروں کو رہا کرایا جا سکا۔

لیکن یہ حادثہ اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا، کہ کیا اس سے بہتر کچھ دوسرا سودا ہو سکتا تھا۔ کیا بھارت کی یہ حالت تھی کہ وہ ان ہائجیکرز کا مطالبہ ٹھکرا سکتا تھا، کیا بھارت نے تینوں عسکریت پسندوں کو رہا کر کے بڑی غلطی کر دی تھی، اور سب سے بڑا سوال کہ امرتسر میں ایک اچھا موقع گنوا کر جہاز کو روکنے میں کیوں ناکام رہے، جس کے سبب ایسے حالات پیدا ہوئے تھے۔ اس کا جواب کچھ بھی ہو لیکن فیصلہ صحیح یا غلط حالات کے مطابق ہی لیا گیا تھا۔ اس لیے ان سوالات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی ہے۔

البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مسعود اظہر کی رہائی کے بعد ہی 'جیش محمد' کی داغ بیل پڑی جس نے سنہ 2001 میں بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا اور بعد ازاں کشمیر میں دم توڑتی ہوئی عسکریت پسندی کو زندہ کیا۔ بالاکوٹ کا فضائی حملہ جیش محمد کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کیلئے کیا گیا تھا جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیس برس کے بعد بھی مسعود اظہر کا وجود کس طرح ایک بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.