افغانستان کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی منگل سے شروع ہونے والی رہائی فی الحال ٹل گئی ہے۔
جاوید فیصل نے ٹوئٹ کرکے جانکاری دی کہ آئندہ کل کسی بھی طالبان قیدی کی رہائی نہیں ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا طالبان نے کل کابل میں افغانستان حکومت کے ساتھ تکنیکی بات چیت کرنے کے لئے ایک ٹیم بھیجنے پر اتفاق کیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کے دوران طالبان قیدیون کی رہائی سے متعلق بھی بات چیت ہوئی تھی اور انہیں رہا کیے جانے سے متعلق دستخط ہوئے تھے۔
فی الحال افغانستان میں جموری نظام کے تحت ووٹنگ ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر ملک کا صدر منتخب کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں موجودہ صدر اشرف غنی ہیں اور ان کا براہ راست طالبان اور ان کی متوازی حکومت یعنی عبد اللہ عبد اللہ کے ساتھ تصادم ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ اشرف غنی کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ اور اب جبکہ امریکی فوج افغانستان سے انخلا کر رہی ہے، تو ایسے میں اشرف غنی کی حکومت کا طالبان کے تئیں نرم رویہ نہ رکھنا فطری کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ طالبان کو اشرف غنی کی حکومت کے لیے بڑا خطرہ مانا جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ہو جاتا ہے اور طالبان کے قیدیوں کی رہائی ہو جاتی ہے تو ایسے میں طالبان اور غنی حکومت کے مابین تصادم کے حالات ہوں گے اور اس سلسلے میں بھارت اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات پر اثر پڑنے کے بھی امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
در اصل بھارت نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے ایسے میں اگر طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو بھارت کو یقینی طور پر طالبان کے ساتھ اس کی شرائط پر معاہدہ کرنا ہو گا اور ساتھ ہی طالبان کے نظریات کو بھی قبول کرنا ہو گا، جیسا کہ امریکہ نے کیا ہے۔
اس لیے طالبان مستقبل میں افغانستان میں کس طرح کا کردار ادا کرتا ہے اور بھارت مستقبل میں طالبان کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھتا ہے یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہو سکتا ہے۔