امریکہ کے شہر سیاٹل میں محکمہ صحت کی جانب سے اس ویکسین کی پہلی بار انسان پر آزمائش کی گئی ہے۔
سیاٹل میں واقع کیسر پرمانینٹی ریسرچ فیسیلیٹی میں چار مریضوں پر اس ویکسین تجربہ کیا گیا ہے۔ تجربہ کے بعد امید کی جارہی ہے کہ یہ ویکسین کورونا وائرس کی روک تھام میں کارآمد ثابت ہوگی۔
اس ویکسین کو ایم آر این اے-1273 نام دیا گیا ہے، یہ ویکسین قومی ادارہ برائے صحت، سائنسدانوں اور بائیوٹیکنالوجی کمپنی موڑرنا نے مل کر تیار کیا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ویکسین اپنا اثر دکھانے کے لیے کافی وقت لے سکتی ہے۔ اس ویکسین کا جن چار افراد پر تجربہ کیا گیا ہے انہوں نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر ویکسین کے تجربے کے لیے پیش کیا تھا۔
امریکہ کے قومی ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کا تجربہ 45 رضاکاروں پر کیا جائے گا، اور یہ تجربہ 18 سے 55 سال تک کی عمر کے افرد پر کا جائے گی۔
ویکسین لے رہی 43 سالہ جینیفر ہیلر کہتی ہیں 'میں بے بس محسوس کر رہی ہوں، رضاکاروں میں میں پہلی ہوں جس پر اس ویکسین کا تجربہ کیا گیا ہے، یہ ایک بہت اچھا موقع ہے کہ میں لوگوں کی بہتری کے لیے کچھ کر رہی ہوں'۔
جینیفر کے بچوں کا ماننا ہے کہ ان کی ماں اس تجربہ میں حصہ لے رہی ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے۔
وہیں ویکسین کے تجربہ میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینے والے 46 سالہ نیل براؤننگ نے کہا 'ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ان کی طرح ہی معاشرے کی خدمت میں حصہ لیں، تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو وہ بھی کچھ اسی طرح دنیا میں تبدیلی لائیں'۔
وہیں ایک اور خاتون نے کہا ' اگر میں اپنی صحت کو دیکھوں تو مجھے کوئی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ صرف میرے لیے نہیں ہے بلکہ یہ ویکسین پوری دنیا کو وائرس سے بچانے میں مدد کر سکتی ہے، اس لیے میں اس تجربے میں حصہ لے رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ ویکسین کارآمد ثابت ہوگی اور اس کا استعمال پوری دنیا میں کیا جائے گا نیز لوگوں کو اس سے فائدہ ملے گا اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ اس ویکسین کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوگا'۔
کورونا وائرس سے اب تک ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد متاثر ہیں جبکہ 6000 سے زائد افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔