ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا کہ 'اگر امریکہ چاہتا ہے کہ ایران اپنے وعدوں پر واپس آجائیں تو تہران پر عائد تمام پابندیوں کو ختم کرنا چاہئے، جس کی توثیق کے بعد ہم اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے۔'
وہیں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اس معاہدہ کو بحال کرنے کے خواہاں ہیں لیکن انہوں نے سب سے پہلے ایران سے جوہری سرگرمیاں ختم کرنے کے لیے اصرار کیا۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر ایران معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کرتا ہے تو امریکہ معاہدے میں دوبارہ شامل ہوسکتا ہے۔
قبل ازیں ایران نے انتباہ دیا تھا کہ 'اگر 21 فروری تک اس پر عائد پابندیوں میں نرمی نہ کی گئی تو جوہری معاہدے کو مزید خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گذشتہ روز ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پارلیمنٹ میں کی جانے والی قانون سازی نے حکومت کو پابند کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں سخت مؤقف اختیار کرے۔'
یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں ایرانی پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں عالمی معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات کے معائنے سے روک دیا تھا۔ پارلیمنٹ نے ایران پر پابندیاں ہٹائے جانے تک یورینیم کی افزدوگی بڑھانے کی بھی اجازت دی تھی۔ تہران کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کےلیے ہے۔
واضح رہے کہ 8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر بارک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا اور ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ایران نے اس کے جواب میں جوہری سرگرمیوں کی شرائط کو توڑ کر پروگرام میں تیزی لانے کا اعلان کیا تھا اور یورینیم ذخیرہ کرنے کی حد میں بھی اضافہ کیا تھا۔ ایران نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کی بنیاد پر تہران کو صرف 202.8 کلوگرام یورینیم ذخیرہ کرنے کا حق حاصل تھا۔