خلیجی ملک اُردن کے دارالحکومت عَمّان میں نابینا بچے کھیل کھیل کے ذریعے 'بریل' کی مدد سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہاں تعلیم حاصل کرنے والے 20 سالہ حُسام موسیقی کے فنکار ہیں۔ یہ تقریبا 13 برسوں سے پیانو بجانا سیکھ رہے ہیں۔
حسام کے مطابق وہ ابتدا سے ہی میں خود کو موسیقی کے میدان میں ہُنرمند تصور کرتے ہیں۔ اور 7 برس کی عمر سے ہی موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
عَمان میں نابینا افراد کی تعلیم کے لیے 'اُمہاۃ النّور' نامی ایک ایسا مرکز قائم کیا گیا ہے جہاں تاش کے کھیل اور اس جیسی دیگر سرگرمیوں کے ذریعہ نابینا بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
امہاۃ النور مرکز کی بانی اسرا صلاح توفیق بتاتی ہیں کہ انہیں ایک نابینا بچے کی ماں کے طور پر ایسے ماحول میں کام کرنے کا شوق تھا جہاں نابینا بچے رہتے ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان ماووں اور بہنوں کی نفسیات کو سمجھتی ہیں جن کے گھروں میں نابینا بچے ہوتے ہیں۔ اکثر نابینا بچوں کی مائیں نفسیاتی طور پر تنہائی کا شکار ہوتی ہیں، کیوں کہ ایسے بچے معاشرے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
اسرا صلاح توفیق نے اپنے بچے کے نابینا ہو جانے کے بعد تقریبا 1 برس قبل اس مرکز کی بنیاد ڈالی تھی۔
اسرا صلاح کے نابینا بیٹے اسلام کا کہنا ہے کہ وہ بریل لکھ رہے ہیں اور ان کے جیسے دیگر نابینا بچے بریل کی مدد سے کھیل کر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
اس مرکز کے قیام کا مقصد نابینا بچوں کو سماجی بھید بھاو سے محفوظ رکھنا ہے۔
مایا نامی نابینا طالبہ کا کہنا ہے کہ انہیں متعدد پریشانیوں کا سامنا ہے۔ سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ لوگوں کا سلوک نابینا افراد کے ساتھ قدرے مختلف ہوتا ہے۔کچھ لوگ ان کے ساتھ بیچارے جیسا سلوک کرتے ہیں جسے وہ بالکل پسند نہیں کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جانب سے نابینا نوجوانوں کو پڑھنے اور لکھنے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مدد بھی دی جاتی ہے۔
پروجیکٹ تیار کرنے والی اور رضا کار نور الاَجلونی کا کہنا ہے کہ نابینا بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا کہ وہ بریل پڑھنے میں بے حد کمزور ہیں۔ اس لیے انہوں نے بنیاد سے سکھانے کا ارادہ کیا۔
نور نے انہیں مزاح کے ساتھ ساتھ بریل سکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ان کے حِس کو بڑھانےکی کوشش کی ہے تاکہ نابینا بچے بریل کو بہتر طور پر پڑھ سکیں۔
در اصل 'بریل' اُس طریقہ تعلیم کو کہا جاتا ہے کہ جس میں نابینا افراد کے لیے حروف کو ابھار کر لکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی انگلیوں کی مدد سے حروف کو محسوس سکیں اور اُسی لحاظ سے حروف کو پڑھنے اور لکھنے کی کوشش کر سکیں۔