ETV Bharat / international

girls' schools in Afghan province: افغان صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو کھولنے کی انوکھی پہل

author img

By

Published : Dec 2, 2021, 1:01 PM IST

طالبان کے عہدیداروں نے لابنگ مہم کے بعد اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی باضابطہ طور پر کبھی منظوری نہیں دی، لیکن اکتوبر کے شروع میں جب اساتذہ اور والدین نے اپنے طور پر کلاسز شروع کیں تو انہوں نے اسے نہیں روکا۔

girls' schools in Afghan province
girls' schools in Afghan province

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کے زیادہ تر علاقوں میں ہائی اسکول Girls High School during Taliban rule کی طالبات اپنے گھروں پر ہیں، کیونکہ طالبان حکمرانوں نے انہیں کلاس میں جانے سے منع کیا ہے لیکن ہفتوں سے مغربی صوبہ ہرات میں لڑکیاں اسکول کے کلاس رومز میں واپس لوٹ چکی ہیں، کیونکہ اساتذہ اور والدین کی جانب سے مقامی طالبان کے منتظمین سے اسکول کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دینے کے لیے ایک منفرد اور ٹھوس کوشش کی گئی۔

افغان صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو کھولنے کی انوکھی پہل

طالبان کے عہدیداروں نے لابنگ مہم کے بعد اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی باضابطہ طور پر کبھی منظوری نہیں دی، لیکن اکتوبر کے شروع میں جب اساتذہ اور والدین نے اپنے طور پر کلاسز شروع کیں تو انہوں نے اسے روکا بھی نہیں۔

ہرات میں اس کامیابی سے 1990 کی دہائی کی طالبان حکومت اور افغانستان پر طالبان کی موجودہ حکمرانی میں نمایاں فرق واضح ہوتا ہے۔

اُس وقت طالبان حکمران اپنے سخت گیر نظریے سے سمجھوتہ نہیں کر رہے تھے، خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور تمام لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو وحشیانہ سزائیں دیں۔ لیکن اس بار ان میں زبردست تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ کہ انہوں نے کچھ پرانے قوانین نافذ ضرور کیے ہیں لیکن اس بارے میں مبہم ہے کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کیا نہیں۔

ابہام کا مقصد عوام کو الگ تھلگ کرنے سے بچنا ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان مکمل طور پر معاشی تباہی، بین الاقوامی فنڈنگ ​​میں بندش، ملک میں غذا کی کمی اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کے عسکریت پسندوں کی طرف سے خطرناک جنگ لڑ رہے ہیں، جو اکثر عام لوگوں کو یا طالبان کو نشانہ بنا کر ملک میں دھماکے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

جب اگست میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو زیادہ تر اسکول کووڈ 19 کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔

شدید بین الاقوامی دباؤ کے تحت، طالبان نے جلد ہی تمام سطحوں پر لڑکوں کے اسکولوں کے ساتھ، گریڈ 1-6 میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھول دیے۔ لیکن انہوں نے 7-12 گریڈ کی لڑکیوں کو اسکول واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دی، طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کلاسز کا انعقاد "اسلامی طریقے سے" ہو۔

طالبان نے زیادہ تر خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے بھی روک دیا، جہاں انہیں سب سے زیادہ روزگار ملا ہوا تھا۔

تاہم صوبہ ہرات میں اساتذہ نے تیزی سے منظم ہونا شروع کر دیا۔ اساتذہ یونین کے عہدیداروں نے طالبان کے گورنر اور محکمہ تعلیم کے سربراہ سے ملاقات کی۔

جب اساتذہ نے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے کہا تو طالبان حکام نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ کابل میں حکومت کے حکم کے بغیر اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اساتذہ دباؤ ڈالتے رہے۔ صوبائی دارالحکومت ہرات میں تاجروباوائی گرلز اسکول (Tajrobawai Girls School in Herat) کی پرنسپل بصیرہ بصیر تخہ سمیت تقریباً 40 خواتین پرنسپلوں نے ستمبر میں طالبان کے اعلیٰ تعلیمی عہدیداروں سے ملاقات کی تاکہ ان کے اہم خدشات کو دور کیا جا سکے۔

بصیرتخہ نے کہا کہ انہوں نے طالبان حکام کو یقین دلایا کہ اسکولوں میں صرف خواتین اساتذہ ہیں اور لڑکیاں مناسب حجاب پہنتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اسکول کی طالبات کے لیے امارت اسلامیہ (طالبان حکومت) کی طرف سے حالات میں سہولت فراہم کی گئی ہے۔ ہمیں امارت اسلامیہ (طالبان) نے مدد فراہم کی ہے۔ ہم محفوظ ہیں اور ہمارے لوگ (تعلیم) سے محبت کرتے ہیں اور اس میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی مدد کی۔ اسی لیے اسکول کھل گئے ہیں، ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی بہتر صورتحال رہے گی اور ہم امارت اسلامیہ (طالبان حکومت) سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام صوبوں کی حمایت کریں، اسکول کھولنے کی اجازت دیں اور اسکول کی طالبات کو اسکول جانے اور پڑھائی کی اجازت دیں۔

اکتوبر تک، اساتذہ نے محسوس کیا کہ ان کے پاس طالبان کی جانب سے راہ میں حائل نہ ہونے کا واضح معاہدہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان لائبریرین خواتین کے لیے لائبریری کی بحالی کی منتظر

اساتذہ نے فیس بک پیجز اور میسجنگ ایپ چینلز پر یہ بات پھیلانا شروع کردی کہ لڑکیوں کے ہائی اسکول 3 اکتوبر کو دوبارہ کھلیں گے۔

والدین نے خبروں کو منتقل کرنے کے لیے ایک ٹیلی فون چین بنایا، اور طالبات نے ہم جماعت دوستوں کو بتایا۔

جب تاجروباوائی میں دروازے کھلے تو تمام طالبات نہیں آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ہرات میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھلے

بصیر تخہ نے کہا کہ لیکن جیسے جیسے والدین زیادہ پراعتماد ہوتے گئے، کلاسیز چند دنوں کے بعد بھر گئیں۔

یہں تقریباً 3,900 طالبات گریڈ 1-12 میں زیر تعلیم ہیں۔

صوبہ ہرات کے لیے طالبان کے تعلیمی ڈائریکٹر شہاب الدین ثاقب کا اصرار ہے کہ گروپ کو لڑکیوں کے اسکول جانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ہرات وہ واحد جگہ ہے جہاں پورے صوبے میں لڑکیوں کے ہائی اسکول کھلے ہیں، حالانکہ شمالی افغانستان کے چند انفرادی اضلاع بشمول مزار شریف، شہر میں اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔

لڑکیوں کی مکمل واپسی بین الاقوامی برادری کا اولین مطالبہ ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اساتذہ کی تنخواہیں براہ راست ادا کرنے پر راضی ہو جائیں۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کے زیادہ تر علاقوں میں ہائی اسکول Girls High School during Taliban rule کی طالبات اپنے گھروں پر ہیں، کیونکہ طالبان حکمرانوں نے انہیں کلاس میں جانے سے منع کیا ہے لیکن ہفتوں سے مغربی صوبہ ہرات میں لڑکیاں اسکول کے کلاس رومز میں واپس لوٹ چکی ہیں، کیونکہ اساتذہ اور والدین کی جانب سے مقامی طالبان کے منتظمین سے اسکول کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دینے کے لیے ایک منفرد اور ٹھوس کوشش کی گئی۔

افغان صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو کھولنے کی انوکھی پہل

طالبان کے عہدیداروں نے لابنگ مہم کے بعد اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی باضابطہ طور پر کبھی منظوری نہیں دی، لیکن اکتوبر کے شروع میں جب اساتذہ اور والدین نے اپنے طور پر کلاسز شروع کیں تو انہوں نے اسے روکا بھی نہیں۔

ہرات میں اس کامیابی سے 1990 کی دہائی کی طالبان حکومت اور افغانستان پر طالبان کی موجودہ حکمرانی میں نمایاں فرق واضح ہوتا ہے۔

اُس وقت طالبان حکمران اپنے سخت گیر نظریے سے سمجھوتہ نہیں کر رہے تھے، خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور تمام لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو وحشیانہ سزائیں دیں۔ لیکن اس بار ان میں زبردست تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ کہ انہوں نے کچھ پرانے قوانین نافذ ضرور کیے ہیں لیکن اس بارے میں مبہم ہے کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کیا نہیں۔

ابہام کا مقصد عوام کو الگ تھلگ کرنے سے بچنا ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان مکمل طور پر معاشی تباہی، بین الاقوامی فنڈنگ ​​میں بندش، ملک میں غذا کی کمی اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کے عسکریت پسندوں کی طرف سے خطرناک جنگ لڑ رہے ہیں، جو اکثر عام لوگوں کو یا طالبان کو نشانہ بنا کر ملک میں دھماکے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

جب اگست میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو زیادہ تر اسکول کووڈ 19 کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔

شدید بین الاقوامی دباؤ کے تحت، طالبان نے جلد ہی تمام سطحوں پر لڑکوں کے اسکولوں کے ساتھ، گریڈ 1-6 میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھول دیے۔ لیکن انہوں نے 7-12 گریڈ کی لڑکیوں کو اسکول واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دی، طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کلاسز کا انعقاد "اسلامی طریقے سے" ہو۔

طالبان نے زیادہ تر خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے بھی روک دیا، جہاں انہیں سب سے زیادہ روزگار ملا ہوا تھا۔

تاہم صوبہ ہرات میں اساتذہ نے تیزی سے منظم ہونا شروع کر دیا۔ اساتذہ یونین کے عہدیداروں نے طالبان کے گورنر اور محکمہ تعلیم کے سربراہ سے ملاقات کی۔

جب اساتذہ نے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے کہا تو طالبان حکام نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ کابل میں حکومت کے حکم کے بغیر اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اساتذہ دباؤ ڈالتے رہے۔ صوبائی دارالحکومت ہرات میں تاجروباوائی گرلز اسکول (Tajrobawai Girls School in Herat) کی پرنسپل بصیرہ بصیر تخہ سمیت تقریباً 40 خواتین پرنسپلوں نے ستمبر میں طالبان کے اعلیٰ تعلیمی عہدیداروں سے ملاقات کی تاکہ ان کے اہم خدشات کو دور کیا جا سکے۔

بصیرتخہ نے کہا کہ انہوں نے طالبان حکام کو یقین دلایا کہ اسکولوں میں صرف خواتین اساتذہ ہیں اور لڑکیاں مناسب حجاب پہنتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اسکول کی طالبات کے لیے امارت اسلامیہ (طالبان حکومت) کی طرف سے حالات میں سہولت فراہم کی گئی ہے۔ ہمیں امارت اسلامیہ (طالبان) نے مدد فراہم کی ہے۔ ہم محفوظ ہیں اور ہمارے لوگ (تعلیم) سے محبت کرتے ہیں اور اس میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی مدد کی۔ اسی لیے اسکول کھل گئے ہیں، ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی بہتر صورتحال رہے گی اور ہم امارت اسلامیہ (طالبان حکومت) سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام صوبوں کی حمایت کریں، اسکول کھولنے کی اجازت دیں اور اسکول کی طالبات کو اسکول جانے اور پڑھائی کی اجازت دیں۔

اکتوبر تک، اساتذہ نے محسوس کیا کہ ان کے پاس طالبان کی جانب سے راہ میں حائل نہ ہونے کا واضح معاہدہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان لائبریرین خواتین کے لیے لائبریری کی بحالی کی منتظر

اساتذہ نے فیس بک پیجز اور میسجنگ ایپ چینلز پر یہ بات پھیلانا شروع کردی کہ لڑکیوں کے ہائی اسکول 3 اکتوبر کو دوبارہ کھلیں گے۔

والدین نے خبروں کو منتقل کرنے کے لیے ایک ٹیلی فون چین بنایا، اور طالبات نے ہم جماعت دوستوں کو بتایا۔

جب تاجروباوائی میں دروازے کھلے تو تمام طالبات نہیں آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ہرات میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھلے

بصیر تخہ نے کہا کہ لیکن جیسے جیسے والدین زیادہ پراعتماد ہوتے گئے، کلاسیز چند دنوں کے بعد بھر گئیں۔

یہں تقریباً 3,900 طالبات گریڈ 1-12 میں زیر تعلیم ہیں۔

صوبہ ہرات کے لیے طالبان کے تعلیمی ڈائریکٹر شہاب الدین ثاقب کا اصرار ہے کہ گروپ کو لڑکیوں کے اسکول جانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ہرات وہ واحد جگہ ہے جہاں پورے صوبے میں لڑکیوں کے ہائی اسکول کھلے ہیں، حالانکہ شمالی افغانستان کے چند انفرادی اضلاع بشمول مزار شریف، شہر میں اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔

لڑکیوں کی مکمل واپسی بین الاقوامی برادری کا اولین مطالبہ ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اساتذہ کی تنخواہیں براہ راست ادا کرنے پر راضی ہو جائیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.