یونائٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس کی جانب سے صدرگوٹیبا راجیاپکشا کے اس فیصلے کی مذمت کی گئی ہے۔
سابق سریلنکن آرمی افسر پر سنہ 2000 میں آٹھ لوگوں کے قتل کا الزام تھا جس کے بعد سنہ 2015 میں کورٹ نے سنیل رتنائکے کو مجرم قرار دیا تھا۔
انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میشیل بیچلیٹ نے کہا 'سریلنکا کے صدر کے اس فیصلے نے انسانی حقوق کی خلاف ووزی کی ہے۔
واضح رہے کہ سنیل کا کیس سنہ 2019 میں سریلنکا کے سپرم کورٹ میں گیا تھا جس کہ بعد اسے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا 'اس طرح کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے شکار افراد کو سزا ملنی چاہیے تھی'۔
یو این ایچ سی ایچ آر نے کہا ، "سری لنکا کے تنازعہ کے دوران ہونے والے مظالم کے واحد مرتکب مجرموں کو معاف کرنے انتہائی غلط قدم ہے۔"
فوج پر الزام میں ہے کہ سریلنکا تنازع کے دوران فوج نے مبینہ طور پر خانہ جنگی کے آخری مراحل میں کم از کم 40،000 تامل شہریوں کو ہلاک کیا تھا- وہیں راجیہ پیپکشا نے اس الزام کی تردید بھی کی ہے۔
صدر راجیہ پکشا کے اس فیصلے کی سری لنکا کی مرکزی سیاسی جماعت تامل قومی اتحاد (ٹی این اے) نے بھی مذمت کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ رتنایک کی رہائی ایک موقع پسندانہ فیصلہ تھا۔