مشرقی وسطی کے ملک شام میں گذشتہ 9 برسوں سے ہی خانہ جنگی کا ماحول ہے۔ تاہم گذشتہ کچھ مہینوں سے ملک میں متعدد ممالک کے مداخلت کے سبب فضائی حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر عام لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سفیر گائر پیڈرسن نے بتایا کہ شمال مغربی شام کے ادلب صوبے میں جنگ کے سبب گذشتہ برس دسمبر سے اب تک 9 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس کے دوران پیڈرسن نے عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کو بتایا کہ حالیہ بے گھر ہونے والوں میں سے 81 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ کے سبب بڑے پیمانے پر لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور لوگ بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ان کا بیان حال ہی میں ہونے والے حملوں میں شدت کے دوران متعدد ہلاکتوں کے بعد آیا۔
خیال رہے کہ ادلب اور حلب میں شامی فوج روس کی مدد سے باغیوں کے خلاف مسلسل فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بر عکس ترکی کی جانب سے باغیوں کو فوجی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح ایک ملک میں تین ممالک کی افواج ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اور اس کا خمیازہ عام انسانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔