ترک وزارتِ دفاع نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ ترکی کی مسلح افواج جمعرات کو امریکا کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے کی مکمل پاسداری کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود دہشت گردوں نے گذشتہ 36 گھنٹے کے دوران میں 14 حملے کیے ہیں۔‘‘
بیان میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 12 حملے شام کے شمال مشرق میں واقع قصبے راس العین سے کیے گئے ہیں ۔ ایک حملہ تلِ ابیض اور ایک تلِ تمر کے علاقے سے کیا گیا ہے۔ان حملوں میں ہلکے اور بھاری ہتھیار اور راکٹ استعمال کیے گئے ہیں۔
لیکن ایس ڈی ایف نے ترکی کے اس دعوے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس کی فورسز بھی جنگ بندی سمجھوتے کی مکمل پاسداری کررہی ہیں جبکہ خود ترکی کے فوجیوں نے گولا باری جاری رکھی ہوئی ہے اور جمعرات کو جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے 24 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
ایس ڈی ایف نے ایک بیان میں ترکی پریہ بھی الزام عاید کیا ہے کہ وہ راس العین میں پھنس کر رہ جانے والے شہریوں اور زخمیوں کو نکالنے کے لیے محفوظ راستہ نہیں دے رہا ہے ۔اس نے امریکا کے نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ وہی اس جنگ بندی سمجھوتے کی پاسداری کرانے کے ذمے دار ہیں۔
امریکا کے نائب صدر مائیک پینس اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان جمعرات کو انقرہ میں طویل مذاکرات کے بعد شام میں جنگ بندی کا یہ سمجھوتا طے پایا تھا۔اس کے تحت ترکی نے شامی کرد ملیشیا (پیپلز پروٹیکشن یونٹس، وائی پی جی) کے محفوظ زون سے انخلا کے بعد شمالی شام میں اپنی فوجی کارروائیوں کے مکمل خاتمے سے اتفاق کیا تھا ۔
ترکی نے شامی کرد جنگجوؤں کو سرحدی علاقے سے انخلا کے لیے پانچ دن کا وقت دیا تھا اور اپنی فوجی کارروائیاں معطل کردی تھیں۔ صدر رجب طیب ایردوآن نے جمعہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر کرد فورسز نے سرحد کے ساتھ ’’ محفوظ زون‘‘ کو خالی نہیں کیا تو دوبارہ ان کے خلاف مکمل کارروائی شروع کردی جائے گی۔