ETV Bharat / international

شام: رَقّہ میں داعش کا خوفناک تہ خانہ - سیرین ڈیموکریٹک فورسز

یہ شام کے رقہ شہر کا اسٹیڈیم ہے۔ یہاں چاروں طرف سناٹا پسرا ہوا ہے۔ دیواروں پر نشانات اور تحریریں خوفناک ماضی کی یاد دہانی کراتی ہیں۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Oct 2, 2019, 8:30 PM IST

Updated : Oct 2, 2019, 10:27 PM IST

شام کے رقہ میں واقع سپورٹ سٹیڈیم کے تہ خانے، شدت پسند تنظیم 'داعش' کے قید خانے کے طور پر معروف ہو چکے ہیں۔ دیواروں پر نشانات اور تحریریں خوفناک ماضی کی یاد دہانی کراتی ہیں۔

داعش کے عسکریت پسندوں نے زیر زمین لمبی سرنگیں بنانے کے لیے دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ کر ڈالے تھے۔

ویڈیو

اسٹیڈیم کے محافظ نے ان جگہوں کی نشاندہی کی، جہاں اغوا شدہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں پھانسی دے دی گئی۔

اسٹیڈیم کے گارڈ علی نے بتایا کہ جن پر کسی طرح کا الزام عائد کیا گیا تھا، انہیں یہاں لا کر پھانسی دے دی جاتی تھی۔ جنہیں عبادات کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا تھا، داعش کے لوگ انہیں بھی پھانسی پر چڑھا دیتے تھے۔توہین رسالت کے مرتکبین کو بغیر کسی بحث کے فوری طور پر پھانسی دے دی جاتی تھی۔

کمرے کے ایک کونے میں سیاہ دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علی نے بتایا کہ یہاں داعش نے لوگوں کو جلایا تھا۔

گارڈ نے اُس جگہ کی بھی نشاندہی کی، جہاں لوگوں کو صولی پر چڑھایا جاتا تھا۔

چھت سے لٹکتی زنجیر اور رسیاں اب بھی داعش کے بربریت کی داستان بیان کر رہی ہیں۔

دوسرے کمرے میں گارڈ نے ایک ایسے دیوار کی نشاندہی کرائی، جہاں گولیوں کے متعدد نشانات تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں لوگوں کو کھڑا کر کے انہیں گولی مار دی جاتی تھی۔

خوفناک دور کے حالات، ان کی تفصیلات اور سرنگوں میں کتنے لوگوں کو رکھا گیا تھا اس کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، تاہم عراق اور شام میں ہزاروں افراد کے ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ان میں سے بیشتر افراد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

سنہ 2017 میں مختلف فوجی جماعتوں پر مشتمل 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' اور داعش کے عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے نتیجے میں داعش کے خاتمے کے ساتھ ہی شہر کا تقریبا 80 فیصد حصہ ملبے میں تبدیل ہو گیا تھا۔

مقامی باشندے ابو حسین نے بتایا کہ یہاں جو کچھ بھی پیش آیا اس کے بعد انہیں رقہ میں دوبارہ امن کی امید نہیں تھی۔ ایک بھی ایسا گھر نہیں، جس کو نقصان نہ پہنچا ہو۔ اور ایسا کوئی خاندان باقی نہیں ہے جس نے اپنے کسی فرد کو نہ کھویا ہو۔ لوگوں کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں گے۔ امیر لوگ دوبارہ اپنے لیے گھروں کی تعمیر کر رہے ہیں۔ جبکہ دیگر افراد کرایے پر رہنے کو مجبور ہیں۔

فی الحال رقہ میں لوگوں کی زندگی رفتہ رفتہ دوبارہ بحال ہو رہی ہے۔ جو سڑکیں کبھی ملبوں میں دبی ہوئی تھیں، انہیں انتہائی مشقت کے بعد صاف کر کے آمد و رفت کے قابل بنا لیا گیا ہے۔

تاہم بلند عمارتوں کے ڈھانچے اب بھی بم دھماکوں اور پر خطر حالات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سرکاری عہدیداروں کے مطابق سنہ 2017 میں داعش کے مکمل خاتمے کے بعد 8 لاکھ سے زائد افراد اپنے شہر دوبارہ واپس لوٹ چکے ہیں۔ دوکانیں کھل گئی ہیں، اور معمول کے مطابق لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے ہیں۔

ان سب کے باوجود شام میں اب تک مکمل طور پر عدم تحفظ کو ممکن نہیں بنایا جا سکا ہے۔ داعش کے عسکریت پسندوں کی جماعت ریگستانی علاقوں میں دوبارہ متحرک ہو کر مقامی عہدیداروں اور حفاظتی چوکیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

شمالی شام کی رضاکارانہ اسٹاف پر مبنی تنظیم 'روجاوا انفارمیشن سینٹر' کے مطابق گذشتہ ماہ اگست میں رقہ کے اندر 6 حملے ریکارڈ کیے گئے تھے۔

شام کے رقہ میں واقع سپورٹ سٹیڈیم کے تہ خانے، شدت پسند تنظیم 'داعش' کے قید خانے کے طور پر معروف ہو چکے ہیں۔ دیواروں پر نشانات اور تحریریں خوفناک ماضی کی یاد دہانی کراتی ہیں۔

داعش کے عسکریت پسندوں نے زیر زمین لمبی سرنگیں بنانے کے لیے دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ کر ڈالے تھے۔

ویڈیو

اسٹیڈیم کے محافظ نے ان جگہوں کی نشاندہی کی، جہاں اغوا شدہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں پھانسی دے دی گئی۔

اسٹیڈیم کے گارڈ علی نے بتایا کہ جن پر کسی طرح کا الزام عائد کیا گیا تھا، انہیں یہاں لا کر پھانسی دے دی جاتی تھی۔ جنہیں عبادات کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا تھا، داعش کے لوگ انہیں بھی پھانسی پر چڑھا دیتے تھے۔توہین رسالت کے مرتکبین کو بغیر کسی بحث کے فوری طور پر پھانسی دے دی جاتی تھی۔

کمرے کے ایک کونے میں سیاہ دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علی نے بتایا کہ یہاں داعش نے لوگوں کو جلایا تھا۔

گارڈ نے اُس جگہ کی بھی نشاندہی کی، جہاں لوگوں کو صولی پر چڑھایا جاتا تھا۔

چھت سے لٹکتی زنجیر اور رسیاں اب بھی داعش کے بربریت کی داستان بیان کر رہی ہیں۔

دوسرے کمرے میں گارڈ نے ایک ایسے دیوار کی نشاندہی کرائی، جہاں گولیوں کے متعدد نشانات تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں لوگوں کو کھڑا کر کے انہیں گولی مار دی جاتی تھی۔

خوفناک دور کے حالات، ان کی تفصیلات اور سرنگوں میں کتنے لوگوں کو رکھا گیا تھا اس کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، تاہم عراق اور شام میں ہزاروں افراد کے ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ان میں سے بیشتر افراد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

سنہ 2017 میں مختلف فوجی جماعتوں پر مشتمل 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' اور داعش کے عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے نتیجے میں داعش کے خاتمے کے ساتھ ہی شہر کا تقریبا 80 فیصد حصہ ملبے میں تبدیل ہو گیا تھا۔

مقامی باشندے ابو حسین نے بتایا کہ یہاں جو کچھ بھی پیش آیا اس کے بعد انہیں رقہ میں دوبارہ امن کی امید نہیں تھی۔ ایک بھی ایسا گھر نہیں، جس کو نقصان نہ پہنچا ہو۔ اور ایسا کوئی خاندان باقی نہیں ہے جس نے اپنے کسی فرد کو نہ کھویا ہو۔ لوگوں کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں گے۔ امیر لوگ دوبارہ اپنے لیے گھروں کی تعمیر کر رہے ہیں۔ جبکہ دیگر افراد کرایے پر رہنے کو مجبور ہیں۔

فی الحال رقہ میں لوگوں کی زندگی رفتہ رفتہ دوبارہ بحال ہو رہی ہے۔ جو سڑکیں کبھی ملبوں میں دبی ہوئی تھیں، انہیں انتہائی مشقت کے بعد صاف کر کے آمد و رفت کے قابل بنا لیا گیا ہے۔

تاہم بلند عمارتوں کے ڈھانچے اب بھی بم دھماکوں اور پر خطر حالات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سرکاری عہدیداروں کے مطابق سنہ 2017 میں داعش کے مکمل خاتمے کے بعد 8 لاکھ سے زائد افراد اپنے شہر دوبارہ واپس لوٹ چکے ہیں۔ دوکانیں کھل گئی ہیں، اور معمول کے مطابق لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے ہیں۔

ان سب کے باوجود شام میں اب تک مکمل طور پر عدم تحفظ کو ممکن نہیں بنایا جا سکا ہے۔ داعش کے عسکریت پسندوں کی جماعت ریگستانی علاقوں میں دوبارہ متحرک ہو کر مقامی عہدیداروں اور حفاظتی چوکیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

شمالی شام کی رضاکارانہ اسٹاف پر مبنی تنظیم 'روجاوا انفارمیشن سینٹر' کے مطابق گذشتہ ماہ اگست میں رقہ کے اندر 6 حملے ریکارڈ کیے گئے تھے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Oct 2, 2019, 10:27 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.