'بھگت' جو شیر محمد عباس اسٹنکزائی پادشاہ خان یا عام طور پر محمد عباس اسٹنکزائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسٹنکزئی کو آج طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار کے طور پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ 'بھگت' دہرادون میں انڈین ملٹری اکیڈمی (آئی ایم اے) کی بٹالین میں شامل تھے۔ جہاں انہوں نے اپنی ڈیڑھ سالہ طویل پری کمیشن ٹریننگ کے دوران اپنی فوجی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔
طالبان لیڈروں میں سب سے زیادہ طاقتور سمجھے جانے والے ٹاپ لیڈر جو اب 58 برس کے ہیں، 1982-83 کے دوران آئی ایم اے کے 71 ویں کورس کا حصہ تھے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو آئی ایم اے میں اسٹنکزائی کے کچھ ساتھی بھارتی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔
آئی ایم اے ہی سے اسٹنکزائی نے جنگ کی بنیادی باتیں، پالیسی، حکمت عملی، ہتھیاروں کی ہینڈلنگ، جسمانی اور ذہنی مہارت سیکھی جو کہ جنٹلمین کیڈٹس (جی سی) کے نصاب کا بنیادی حصہ ہیں۔
آئی ایم اے میں اپنی پری کمیشن ٹریننگ مکمل کرنے اور بطور لیفٹیننٹ افغان نیشنل آرمی میں شمولیت کے بعد چند سالوں میں اسٹانکزائی کا دل بدل گیا۔ جس کی وجہ سے انھوں نے سوویت فوج سے لڑنے کے لیے افغان فوج کو چھوڑ کر مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
در حقیقت روسی 1979 کے حملے سے لے کر 1989 میں ان کی واپسی تک افغانستان میں تعینات تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
- Taliban begin unprecedented talks: طالبان کمانڈر کی سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات
- اشرف غنی کو یو اے ای میں ملی پناہ
- 'عالمی برادری کو افغانستان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے'
اسٹانکزائی اپنے تعلیمی لیاقت اور انگریزی میں روانگی کے ساتھ گفتگو اور عام فن کاری کی وجہ سے طالبان کے درمیان تیزی کے ساتھ ترقی کرتے رہے، اس حقیقت کے پس منظر میں ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ طالبان کی زیادہ تر قیادت باضابطہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتی ہے۔
1996 میں جب طالبان نے کابل میں اقتدار پر قبضہ کیا تو اسٹانکزئی کو حکومت میں نائب وزیر خارجہ اور نائب وزیر صحت مقرر کیا گیا۔
لیکن جب امریکی افواج 9/11 کے حملوں کے بعد 2001 میں افغانستان میں داخل ہوئی اور طالبان کو بھاگنے پر مجبور کیا گیا تو وہ جنوری 2012 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے جہاں انہوں نے سیاسی اور غیر ملکی دفاتر کی سربراہی کی۔
2001 سے اسٹانکزائی کو اقوام متحدہ نے دوحہ میں طالبان سے وابستہ شخص کے طور پر نامزد کیا ہے۔ اس کے باوجود اس نے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر جاری رکھا۔ وہ حال ہی میں اشرف غنی کی قیادت والی افغان حکومت سے امریکہ، روس اور چین کے اہم رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔
ستمبر 2020 میں اسے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کے مقرر کردہ ملا عبدالحکیم کا نائب بنایا گیا۔