میانمار کے بڑے اور صنعتی شہر رنگون سے بدھ کے روز ہزاروں لوگ نقل مکانی کے مقصد سے اپنے سامان کے ساتھ عوامی ٹرانسپورٹ اور مال بردار گاڑیوں کی مدد سے دوسرے علاقوں کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دیئے۔
یکم فروری کو فوج کے ذریعہ تختہ پلٹ کے خلاف ہلائنگ تھار یار علاقے میں مظاہرے کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ذریعہ فائرنگ میں 30 سے زائد مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔
ینگون میں مارشل لا نافذ ہونے کے باعث خبریں بھی سامنے نہیں آ پا رہی ہیں۔ ملک میں میڈیا پر مختلف پابندیاں عائد ہیں اور مظاہرین کی بہت ساری لاشوں کو سکیورٹی فورسز نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد تختہ پلٹ کے خلاف پورے میانمار میں تشدد برپا ہے۔ جمہوری نظام پر یقین رکھنے والے کارکنان مسلسل مظاہرہ کر رہے ہیں جس کے خلاف سکیورٹی فورسز کاروائی کر رہی ہے۔
اس دوران ملک میں صحت کا ڈھانچہ بھی چوپٹ ہو چکا ہے۔ کیونکہ سکیورٹی فورسز نے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور ڈاکٹروں نے بھی فوجی تختہ پلٹ کی مخالفت کی ہے۔
سرکاری میانمار کی نیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ فائرنگ کے ساتھ ہی اس علاقے میں پانچ فیکٹریوں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔
منگل کے روز ینگون کی بند سڑکوں کے قریب عمارتوں سے اٹھتے دھویں دکھائی دیتے رہے۔
آزادانہ امدادی تنظیم برائے سیاسی قیدی نے منگل کے روز کہا کہ اس بغاوت کے بعد سے 183 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔