افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بین الاقوامی برادری کے سامنے افغانستان کی حمایت کرنے پر پاکستان کی تعریف کی۔
پاکستانی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے بارے میں آواز اٹھاتا رہا ہے اور بین الاقوامی افواج سے افغانستان میں شمولیت کی اپیل کرتا رہا ہے۔
وہیں طالبان کی طرف سے یہ بیان بھی آیا کہ طالبان کشمیر کے مصیبت زدہ مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے، جبکہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد کہا گیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اب ایک بار پھر اس مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے ، چاہے وہ فلسطین ہو ، کشمیر ہو یا میانمار۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں بھی مسلمانوں کے خلاف مظالم ہو رہے ہیں یہ تشویشناک ہے اور ہم اس کے خلاف ہیں۔
ہم جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی حکومت دنیا کے مختلف حصوں میں مصیبت زدہ مسلمانوں کی سفارتی اور سیاسی مدد جاری رکھے گی۔
افغانستان کے قائم مقام نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے انٹرویو میں پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر حمایت کرنے پر تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا پڑوسی ہے اور ہم افغانستان کے بارے میں پاکستان کے موقف کے شکر گزار ہیں۔
- طالبان کا اگلے سال نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا منصوبہ
- طالبان نے افغانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا
- عمران خان کا عالمی برادری سے مطالبہ، طالبان حکومت کی حمایت کریں
انہوں نے کہا کہ افغانستان بین الاقوامی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا اور تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ پڑوسی ممالک بین الاقوامی برادری کے سامنے افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ کئی ممالک نے بین الاقوامی برادری اور امریکہ کے سامنے طالبان کے حق میں آواز بلند کی ہے۔
ذبیح اللہ نے کہا کہ قطر ، ازبکستان اور کئی دیگر ممالک نے افغانستان کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھ روز قبل چین اور روس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گروپ (طالبان) کے حق میں بات کی تھی۔
انہوں نے پنجشیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پنجشیر میں جدوجہد ختم ہو چکی ہے اور ہم کسی کے ساتھ جنگ کرنا نہیں چاہتے۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کے بعد طالبان کی ترجیح دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کو بڑھانا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی گروپ نے افغانستان پر حملہ کیا یا حکومت کے خلاف جنگ کی تو اسے مناسب جواب دیا جائے گا