افغانستان میں 20 سال سے جاری جنگ کے بعد امریکی و نیٹو افواج کا اس ملک سے انخلا تیزی سے جاری ہے وہیں طالبان کی پیش قدمی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس نے ملک کے بیشتر علاقوں پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ ماسکو میں موجود طالبان وفد کی سربراہی کرنے والے شہاب الدین دلاور نے کیا افغانستان کے 85 فیصد علاقہ پر قبضہ کرلینے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اس حوالے سے افغان حکومت کا موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے طالبان کی ڈرامائی انداز میں پیش قدمی کا سلسلہ جاری ہے۔ کابل پر فی الحال افغان حکومت کا قبضہ برقرار ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کے 34 صوبوں کے 200 سے زائد اضلاع پر انہوں نے قبضہ کرلیا ہے جو ملک کے 85 فیصد علاقے کے برابر ہے۔
طالبان کے ترجمان شہاب الدین دلاور نے روس میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے 85 فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور ملک کے تمام سرحدی علاقے طالبان کے زیراثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے وعدے پر قائم ہے جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کو پڑوسی ممالک سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
طالبان وفد کے رکن سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان سے روس کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے جبکہ ہمارا رابطہ مسلسل روس کے ساتھ قائم رہا ہے۔ طالبان کے وفد نے ایک مرتبہ پھر روس کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ ’وہ لڑنا نہیں چاہتے بلکہ مذاکرات کے ذریعہ سیاسی حل تلاش کرنے کے خواہاں ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے امریکی انخلا پر انڈیانا یونیورسٹی کے پروفیسر کا تبصرہ
اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شمالی صوبے بدخشاں میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کے بعد تاجکستان کے صدر نے بدخشاں سے متصل تاجک سرحد کی حفاظت کے لیے 20 ہزار فوجی بھیجنے کا حکم دیا تھا، تاہم روس کی جانب سے تاجکستان کو سرحد پر صورتِ حال مستحکم کرنے میں تعاون کرنے یقین دہانی کرائی تھی۔ طالبان کی پیش قدمی کے بعد سینکڑوں افغان فوجی سرحد عبور کرکے تاجکستان فرار ہوگئے تھے۔ وہیں افغان۔ایران سرحدی قصبے اسلام قلعہ پر بھی طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔