سری لنکا کے وزیر اعظم ماہندا راجا پکشے نے، اپنے عہدے کا حلف لینے کے ایک دن بعد ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اُن کے ملک کو ایک ایسے نئے آئین کی ضرورت ہے، جو خارجی قوتوں کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ سری لنکا کے عوام کی خواہشات کا ترجمان ہو۔ راجا پکشے، جنہوں نے گزشتہ ہفتے کووِڈ 19 کے چلتے منعقد کئے گئے پارلیمانی انتخابات میں شاندار فتح حاصل کی، کو کل کولمبو میں واقع کیلنیا بودھ مندر میں ان کے بھائی گوٹا بھایا راجا پکشے، جو سری لنکا کے صدر ہیں، نے اُن کے عہدے اور رازداری کا حلف دلایا۔
گوٹا بھایا نے نومبر 2019ء میں منعقد کرائے گئے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے 52فیصد ووٹوں کی شرح سے صدارتی انتخابات میں اپنی جیت درج کرائی تھی۔ 9 ماہ بعد اب اُن کے بھائی ماہندا نے اپنی پارٹی ’سری لنکا پڈوجانہ پیرا مونا (ایس ایل پی پی)‘ کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اُنہوں نے شمال مشرقی ضلع کارونیگالا حلقہ انتخاب سے الیکشن جیتا۔
برسراقتدار آنے والی پارٹی کو کل 145 نشستیں حاصل ہوئیں۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ مجموعی طور پر 225 اراکین پر مشتمل ہے۔ پارٹی کے انتخابی منشور میں 19 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تاہم پالیمنٹ میں اس قانون سازی کےلئے حکمران جماعت سری لنکا پڈوجانہ پیرا مونا (ایس ایل پی پی) کو دو تہائی اکثریت یعنی 150 اراکین کی حمایت حاصل ہونی چاہیے، جبکہ پارٹی کے پاس 145 سیٹیں ہیں۔
سینئر صحافی سمیتا شرما کے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم ماہندا راجا پکشے نے کہا کہ ’’( سابق سرکار کی جانب سے کرائی گئی) 19 ویں آئینی ترمیم نے آسانی اور مفید طریقے سے حکومتی نظام چلانا تقریباً ناممکن بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا کے عوام نے جوش و خروش کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیکر سابق انتظامیہ کو مسترد کیا ہے۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سری لنکا کے آئین میں انیسویں ترمیم سال 2015ء میں کی گئی تھی، جب ماہندا نے دس سال اقتدار چلانے کے بعد الیکشن ہارا تھا۔ اُس وقت منعقد کرائے گئے انتخابات میں میتھراپالی سری سینا سری لنکا کے صدر اور وکریم سنگھئی یونایٹڈ نیشنل پارٹی (یو این پی ) کی سرکار میں وزیر اعظم کے بطور منتخب ہوئے تھے۔ اس سرکار کی جانب سے کی گئی انیسویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں صدر کے اختیارات کم کر کے یہ اختیارات وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو تفویض کئے گئے تھے۔ ’اصلاح پسند سرکار‘ نے اپنے اِس اقدام کا مقصد پارلیمانی طرز حکومت کو موثر بنانا بتایا گیا تھا۔
تاہم آج ای ٹی وی بھارت کی صحافی سمیتا شرما کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم راجا پکشے نے اس آئینی ترمیم کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں خارجی قوتوں کو فائدہ حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سری لنکا کو ایک نئے آئین کی ضرورت ہے، جو ملک کو راس آئے اور خارجی قوتوں کی خواہشات کی تکمیل کرنے کے بجائے ملک کے عوام کی خواہشات کی ترجمانی کرے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم سماج کے مختلف طبقات سے صلاح و مشورہ کرکے ایسا (انیسویں آئینی ترمیم کو کالعدم) کریں گے۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سری سینا سری اور وکریم سنگھئی کو حالیہ انتخابات میں محض تین فیصد ووٹ ملے اور اس طرح سے انہیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں لیڈران یونائیٹڈ نیشنل پارٹی سے الگ ہوگئے ہیں اور اب پارلیمنٹ میں 54 نشستوں کے ساتھ کلیدی اپوزیشن کے بطور ابھر کر آگئے ہیں۔
اس بارے میں ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ آیا وزیر اعظم ماہندا راجا پکشے ملک کے صدر کے عہدے، جس پر اس وقت اُن کے بھائی گوٹا بھایا فائز ہیں، کو مزید اختیارات تفویض کریں گے یا نہیں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا، یعنی انیسویں آئینی ترمیم کو کالعدم نہیں کیا تو اس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کے درمیان ٹھن سکتی ہے اور حکومت کمزور ہوسکتی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کولمبو کے سٹریٹجیک بندرگاہ پر ایسٹرن کنٹینر ٹرمنل (ای سی ٹی) پروجیکٹ کی تعمیر کا کام بھارت اور جاپان ہی کرے گا یا پھر نئی سرکار یہ فیصلہ بدل دے گی؟، وزیر اعظم راجا پکشے نے کوئی جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی نئی کابینہ تشکیل نہیں پائی ہے اس لئے اس سوال کا جواب دینا ’قبل از وقت‘ ہوگا۔