کولمبو: سری لنکا نے زرمبادلہ کے بحران کے دوران خام تیل کی خریداری کے لیے بھارت سے 500 ملین امریکی ڈالر کے قرض کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ اقدام وزیر توانائی ادے گماناپیلا کے انتباہ کے چند دن بعد کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ ایندھن کی دستیابی کی ضمانت صرف اگلے جنوری تک دی جا سکتی ہے۔ بھارت، پاکستان کی طرح سری لنکا میں بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے اور ٹیکس کی وجہ سے ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
حکومت کے زیر انتظام سیلون پٹرولیم کارپوریشن (سی پی سی) دو بڑے سرکاری بینکوں-بینک آف سیلون اور پیپلز بینک کا تقریباً 3.3 بلین ڈالر کا مقروض ہے۔ ریاست کے تیل کے تقسیم کار مشرق وسطیٰ کے ممالک سے خام تیل اور سنگاپور سمیت دیگر علاقوں سے بہتر مصنوعات درآمد کرتے ہیں۔
سی پی سی کے چیئرمین سمت وجیسنگھے کے حوالے سے مقامی نیوز ویب سائٹ Newsfirst.lk نے کہا کہ "ہم فی الحال بھارتی ہائی کمیشن کے ساتھ بھارت-سری لنکا اقتصادی شراکت داری کے انتظام کے تحت 500 ملین امریکی ڈالر کریڈٹ لائن حاصل کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ یہ سہولت پٹرول اور ڈیزل کی ضروریات کے حصول کے لیے استعمال کی جائے گی۔ رپورٹ میں سیکریٹری خزانہ ایس آر اٹیگیل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بھارت اور لنکا دونوں کے انرجی سیکرٹریز سے توقع ہے کہ وہ جلد ہی قرض کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔
پچھلے ہفتے رسوئی گیس اور دیگر ضروری اشیاء میں اضافے کے باوجود حکومت نے ایندھن کی متوقع خوردہ قیمتوں میں اضافہ روک دیا ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے سری لنکا کو اس سال تیل کی درآمد پر زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ملک کا تیل کا بل گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے سات ماہ میں 41.5 فیصد اضافے کے ساتھ 2 بلین ڈالر ہو گیا ہے۔