ETV Bharat / international

'خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی حکومت ذمہ دار'

سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل پر اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے بیان دیا اور سعودی عرب کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Jun 19, 2019, 7:34 PM IST

جمال خاشقجی کا قتل گذشتہ برس استنبول میں سعودی عرب کے قونصلیٹ میں ہوا تھا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری شدہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کونسل کے رکن ایگنیس کلا مارڈ نے کہا ہے کہ 'خاشقجی کی موت غیر معمولی ہے جس کے لیے سعودی عرب کی حکومت ذمہ دار ہے'۔

اس کے علاوہ یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں ملوث لوگوں کی شناخت کرنے اور اس معاملے میں ان کے کردار کو طے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ 'خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ اہلکار ہیں'۔

مملکت سعودی عربیہ کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں 11 نامعلوم سرکاری اہل کاروں پر خفیہ عدالت میں مقدمہ چلا رہی ہے۔

اس مقدمے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کیلامارڈ نے کہا جس قسم کی مقدمہ کی کارروائی ہو رہی ہے، وہ بین الاقومی تقاضوں پر نہیں اترتی ہے۔

حتی کہ کیلامارڈ نے مقدمے کی کارروائی کو معطل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے، باہر ان کی مینگتر ان کا انتظار کرتی رہیں مگر وہ باہر نہیں آئے۔

آئیے جمال خاشقجی کے قتل پر پیش ایک تاریخ وار بیانیے:

4 اکتوبر 2018

سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا کہ جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصلیٹ سے نکلنے کے بعد کہاں گئے، اس کی کوئی خبر نہیں ہے، انہیں تلاش کیا جا رہا ہے۔


6 اکتوبر 2018

جمال خاشقجی واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کر رہے تھے، واشنگٹن پوسٹ نے کہ انھیں سفارت خانے کے اندر سعودی عرب سے آنے والی 15 افراد کے ایک گروہ نے ہلاک کر دیا۔

10 اکتوبر 2018

ترک میڈیا نے سی سی ٹی وی فوٹیج نشر کیا جس کے مطابق مبینہ گروہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔


13 اکتوبر 2018

سعودی عرب کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی کہ خاشقجی کو قونصلٹ کے اندر قتل کیا گیا ہے ۔

15 اکتوبر 2018

اس سلسلے ریاست ہائے متحدہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے بات کی جنھوں نے اس قتل کے الزامات کو رد کیا۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس کے ذمہ دار چند 'سرکش ایجنٹ' ہو سکتے ہیں۔

20 اکتوبر 2018

حکومت سعودی عرب کی جانب سے باضابطہ جمال خاشقجی کے ہلاکت کی خبر نشر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک لڑائی کے دوران ہلاک ہوگئے ہیں۔

مزید برآں سعودی عرب نے اپنے دو اعلیٰ اہکار کو نوکری سے نکال دیا۔

تاہم عالمی سطح پر سعودی عرب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ دوبارہ جانچ اور تحقیقات کا مطالبہ کیاگیا۔


22 اکتوبر 2018

سعودی عرب نے ایک بار پھر ان خبروں کی تردید کی جس میں کہا گیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں۔


16 نومبر 2018

واشنگٹن پوسٹ نے سی آئی اے کے ایک بار اپنی رپورٹ کیا کہ محمد بن سلمان نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس کی تردید میں کہا کہ سی آئی اے نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔

22 نومبر 2018

اس پر کارروائی کرتے ہوئے جرمنی اور برطانیہ کی طرح فرانس نے مشتبہ سعودی افراد کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔نیز جرمنی سعودی عرب کو ہتھیار کی فروخت بند کر دینے کا اعلان کیا۔

جمال خاشقجی کا قتل گذشتہ برس استنبول میں سعودی عرب کے قونصلیٹ میں ہوا تھا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری شدہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کونسل کے رکن ایگنیس کلا مارڈ نے کہا ہے کہ 'خاشقجی کی موت غیر معمولی ہے جس کے لیے سعودی عرب کی حکومت ذمہ دار ہے'۔

اس کے علاوہ یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں ملوث لوگوں کی شناخت کرنے اور اس معاملے میں ان کے کردار کو طے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ 'خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ اہلکار ہیں'۔

مملکت سعودی عربیہ کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں 11 نامعلوم سرکاری اہل کاروں پر خفیہ عدالت میں مقدمہ چلا رہی ہے۔

اس مقدمے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کیلامارڈ نے کہا جس قسم کی مقدمہ کی کارروائی ہو رہی ہے، وہ بین الاقومی تقاضوں پر نہیں اترتی ہے۔

حتی کہ کیلامارڈ نے مقدمے کی کارروائی کو معطل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے، باہر ان کی مینگتر ان کا انتظار کرتی رہیں مگر وہ باہر نہیں آئے۔

آئیے جمال خاشقجی کے قتل پر پیش ایک تاریخ وار بیانیے:

4 اکتوبر 2018

سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا کہ جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصلیٹ سے نکلنے کے بعد کہاں گئے، اس کی کوئی خبر نہیں ہے، انہیں تلاش کیا جا رہا ہے۔


6 اکتوبر 2018

جمال خاشقجی واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کر رہے تھے، واشنگٹن پوسٹ نے کہ انھیں سفارت خانے کے اندر سعودی عرب سے آنے والی 15 افراد کے ایک گروہ نے ہلاک کر دیا۔

10 اکتوبر 2018

ترک میڈیا نے سی سی ٹی وی فوٹیج نشر کیا جس کے مطابق مبینہ گروہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔


13 اکتوبر 2018

سعودی عرب کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی کہ خاشقجی کو قونصلٹ کے اندر قتل کیا گیا ہے ۔

15 اکتوبر 2018

اس سلسلے ریاست ہائے متحدہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے بات کی جنھوں نے اس قتل کے الزامات کو رد کیا۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس کے ذمہ دار چند 'سرکش ایجنٹ' ہو سکتے ہیں۔

20 اکتوبر 2018

حکومت سعودی عرب کی جانب سے باضابطہ جمال خاشقجی کے ہلاکت کی خبر نشر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک لڑائی کے دوران ہلاک ہوگئے ہیں۔

مزید برآں سعودی عرب نے اپنے دو اعلیٰ اہکار کو نوکری سے نکال دیا۔

تاہم عالمی سطح پر سعودی عرب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ دوبارہ جانچ اور تحقیقات کا مطالبہ کیاگیا۔


22 اکتوبر 2018

سعودی عرب نے ایک بار پھر ان خبروں کی تردید کی جس میں کہا گیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں۔


16 نومبر 2018

واشنگٹن پوسٹ نے سی آئی اے کے ایک بار اپنی رپورٹ کیا کہ محمد بن سلمان نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس کی تردید میں کہا کہ سی آئی اے نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔

22 نومبر 2018

اس پر کارروائی کرتے ہوئے جرمنی اور برطانیہ کی طرح فرانس نے مشتبہ سعودی افراد کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔نیز جرمنی سعودی عرب کو ہتھیار کی فروخت بند کر دینے کا اعلان کیا۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.