ETV Bharat / international

اردن: مہاجر کیمپ میں روزگار کا نیا انداز

کیمپ میں چار کچن ہیں۔ یہ سبھی کچن اقوام متحدہ کی تنظیم 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے تحت چلائے جاتے ہیں۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Oct 15, 2019, 10:03 PM IST

Updated : Oct 16, 2019, 5:23 AM IST

جنوبی اردن کے المفرق شہر سے تقریبا 10 کلو میٹر مشرق میں واقع 'زاتاری مہاجر کیمپ' میں ہزاروں مہاجرین پناہ گزیں ہیں۔

ویڈیو

کیمپ کے اسکولز میں روزانہ بچوں کو لنچ دیا جاتا ہے۔ اور کیمپ کا یہی کچن شامی مہاجر خواتین کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔

بچوں کے لنچ مہاجر کیمپ میں ہی تیار کیے جاتے ہیں۔ اس کو تیار کرنے کے لیے وہ خواتین کام کرتی ہیں، جو بذات خود مہاجر کے طور پر پناہ گزیں ہیں۔

کچن میں کام کرنے والی خاتون ام لیث اپنے چار بچوں کے ساتھ کیمپ میں رہتی ہیں۔ وہ گھر میں ناشتہ نہیں پکاتیں، کیوںکہ ان کے بچے اسکول میں پڑھتے ہیں، اور وہیں کھانا بھی کھاتے ہیں۔

ام لیث کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ماں باپ دونوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ جب وہ کیمپ میں آئی تھیں، تو اس وقت ان کی ذہنی کیفیت ناگفتہ بہ تھی۔ آخر کار کیمپ میں رہنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوئیں، اور اب یہاں کام کرنا بھی شروع کر دیا۔

لیث ایک طلاق شدہ خاتون ہیں۔ شوہر سے جدائی کے بعد ان کے لیے کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہیں کچن میں کام کرنے کے لیے ہر ماہ تقریبا 254 امریکی ڈالر بطور تنخواہ دی جاتی ہے۔

وہ پہلے کے مقابلے بہتر زندگی گذار رہی ہیں۔ جب سے انہوں نے کام کرنا شروع کیا ہے، اپنے بچوں کی ہر طرح کی ضروریات کی تکمیل کر سکتی ہیں۔

کیمپ میں چار کچن ہیں۔ یہ سبھی کچن اقوام متحدہ کی تنظیم 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے تحت چلائے جاتے ہیں۔

ڈبلیو ایف پی، کمیونیکیشن کے آفیسر جولیا ملز نے بتایا کہ یہاں چلنے والے چاروں کچنز میں تقریبا 4 سو افراد کام کرتے ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔ سب سے کمزور طبقے کو معاشی طور پر مستحکم بنانا ان کے پروگرام کا حصہ ہے۔ وہ انہیں تربیت دیتے ہیں اور کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

تنظیم کا اندازہ ہے کہ زاتاری کیمپ میں تقریبا 80 ہزار افراد پناہ گزیں ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد افراد 18 برس سے کم عمر کے ہیں۔

ڈبلیو ایف پی سبھی کو ماہانہ 32 امریکی ڈالر الاونس جاری کرتا ہے۔ جاری کیے گئے الاونس کے ذریعہ سپر مارکیٹ سے اشیائے خوردنی خرید سکتے ہیں۔

جولیا ملز نے بتایا کہ سسٹم انتہائی جدید تکنیک سے لیس ہے۔ لوگ نقد اور کارڈ کا استعمال نہیں کر سکتے ۔ یہاں آئرز اسکیننگ سسٹم کا استعمال ہوتا ہے۔ پلک جھپکنے پر کسی شخص کی شناخت متعین ہو جاتی ہے۔ اور یو این ایچ سی آر کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہونے کے سبب اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

اردن میں ڈبلیو ایف پی کے لیے سب سے زیادہ تعاون کرنے والا ملک جرمنی ہے۔ حال ہی میں جرمنی نے اقوام متحدہ کی تنظیم کو 60 ملین امریکی ڈالر کا تعاون دیا ہے۔

غور طلب ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے اردن میں رہنے والے 4 لاکھ 80 ہزار شامی مہاجرین کو اشیائے خوردنی سے متعلق تعادن دیا جاتا ہے۔

شام کی سرحد ایک برس قبل کھولے جانے کے باوجود بہت کم ہی لوگ اپنے وطن واپس لوٹے ہیں۔

جنوبی اردن کے المفرق شہر سے تقریبا 10 کلو میٹر مشرق میں واقع 'زاتاری مہاجر کیمپ' میں ہزاروں مہاجرین پناہ گزیں ہیں۔

ویڈیو

کیمپ کے اسکولز میں روزانہ بچوں کو لنچ دیا جاتا ہے۔ اور کیمپ کا یہی کچن شامی مہاجر خواتین کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔

بچوں کے لنچ مہاجر کیمپ میں ہی تیار کیے جاتے ہیں۔ اس کو تیار کرنے کے لیے وہ خواتین کام کرتی ہیں، جو بذات خود مہاجر کے طور پر پناہ گزیں ہیں۔

کچن میں کام کرنے والی خاتون ام لیث اپنے چار بچوں کے ساتھ کیمپ میں رہتی ہیں۔ وہ گھر میں ناشتہ نہیں پکاتیں، کیوںکہ ان کے بچے اسکول میں پڑھتے ہیں، اور وہیں کھانا بھی کھاتے ہیں۔

ام لیث کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ماں باپ دونوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ جب وہ کیمپ میں آئی تھیں، تو اس وقت ان کی ذہنی کیفیت ناگفتہ بہ تھی۔ آخر کار کیمپ میں رہنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوئیں، اور اب یہاں کام کرنا بھی شروع کر دیا۔

لیث ایک طلاق شدہ خاتون ہیں۔ شوہر سے جدائی کے بعد ان کے لیے کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہیں کچن میں کام کرنے کے لیے ہر ماہ تقریبا 254 امریکی ڈالر بطور تنخواہ دی جاتی ہے۔

وہ پہلے کے مقابلے بہتر زندگی گذار رہی ہیں۔ جب سے انہوں نے کام کرنا شروع کیا ہے، اپنے بچوں کی ہر طرح کی ضروریات کی تکمیل کر سکتی ہیں۔

کیمپ میں چار کچن ہیں۔ یہ سبھی کچن اقوام متحدہ کی تنظیم 'ورلڈ فوڈ پروگرام' کے تحت چلائے جاتے ہیں۔

ڈبلیو ایف پی، کمیونیکیشن کے آفیسر جولیا ملز نے بتایا کہ یہاں چلنے والے چاروں کچنز میں تقریبا 4 سو افراد کام کرتے ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔ سب سے کمزور طبقے کو معاشی طور پر مستحکم بنانا ان کے پروگرام کا حصہ ہے۔ وہ انہیں تربیت دیتے ہیں اور کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

تنظیم کا اندازہ ہے کہ زاتاری کیمپ میں تقریبا 80 ہزار افراد پناہ گزیں ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد افراد 18 برس سے کم عمر کے ہیں۔

ڈبلیو ایف پی سبھی کو ماہانہ 32 امریکی ڈالر الاونس جاری کرتا ہے۔ جاری کیے گئے الاونس کے ذریعہ سپر مارکیٹ سے اشیائے خوردنی خرید سکتے ہیں۔

جولیا ملز نے بتایا کہ سسٹم انتہائی جدید تکنیک سے لیس ہے۔ لوگ نقد اور کارڈ کا استعمال نہیں کر سکتے ۔ یہاں آئرز اسکیننگ سسٹم کا استعمال ہوتا ہے۔ پلک جھپکنے پر کسی شخص کی شناخت متعین ہو جاتی ہے۔ اور یو این ایچ سی آر کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہونے کے سبب اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

اردن میں ڈبلیو ایف پی کے لیے سب سے زیادہ تعاون کرنے والا ملک جرمنی ہے۔ حال ہی میں جرمنی نے اقوام متحدہ کی تنظیم کو 60 ملین امریکی ڈالر کا تعاون دیا ہے۔

غور طلب ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے اردن میں رہنے والے 4 لاکھ 80 ہزار شامی مہاجرین کو اشیائے خوردنی سے متعلق تعادن دیا جاتا ہے۔

شام کی سرحد ایک برس قبل کھولے جانے کے باوجود بہت کم ہی لوگ اپنے وطن واپس لوٹے ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Oct 16, 2019, 5:23 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.