شامی پناہ گزیں 39 سالہ آمنہ عراق کے دومِز مہاجر کیمپ میں گذشتہ 8 برسوں سے رہ رہی ہیں۔
یہ کیمپ میں ہی لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے اپنے خاندان کے اخراجات برداشت کرتی ہیں۔
آمنہ کا کہنا ہے کہ وہ پروفیشنل ڈریس میکر کے طور پر مشہور ہونا چاہتی ہیں۔
جنگ کے حالات دیکھنے کے بعد شام سے عراق ہجرت کرنے والی آمنہ کے لیے ان کا قدیم ہنر آج مشکل حالات میں ان کا ساتھی ہے۔
وہ ہمیشہ بہتر کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ نئے انٹرنیٹ پر نئے ڈیزائن دیکھنے کے بعد اس کو فالو کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
وہ انواع و اقسام کے کپڑے تیار کرنے کے ساتھ خواتین اور شادی کے لباس پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔
آمنہ کے کسٹمرز نہ صرف کیمپ کے افراد، بلکہ کیمپ سے باہر اور مقامی عراقی بھی ان سے کپڑے خریدتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ آئندہ ماہ دوسری نئی مشین خریدنے کی اہل ہو جائیں گی اور اپنی دوکان کو وسیع کریں گی۔ وہ انواع و اقسام کو ترجیح دینا چاہتی ہیں۔
آمنہ نہ صرف اپنا کام اپنے لیے کر رہی ہیں، بلکہ رضاکارانہ طور پر دیگر مہاجر خواتین کو بھی سلائی اور ڈریس میکنگ کا ہنر سکھا رہی ہیں۔
ٹریننگ کرنے والی شامی خاتون شہناز نے بتایا کہ وہ بچوں کے اور روایتی کردش ڈریس بنانا سکھاتی ہیں۔ انہوں نے آمنہ صاحبہ کی زیر تربیت بہت کچھ سیکھا ہے۔
آمنہ کی ٹرینگ کی مدد سے دیگر خواتین بھی خود مختار ہونے کی طرف گامزن ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر مہاجرین کی حفاظت اور امداد کی ذمہ دار تنظیم 'یونائٹیڈ نیشن ہائی کمشنر فار ریفیوجیز' کے مطابق دومز کیمپ میں 32 ہزار سے زائد شامی مہاجرین پناہ گزیں ہیں۔
ایسے میں آمنہ کے لیے کیمپ ہی کسی بڑی مارکیٹ سے کم نہیں ہے۔