شام کے 'ادلب' شہر میں گذشتہ دو مہینوں سے شامی اور روسی افواج کے ذریعہ مشترکہ طور پر زبردست بمباری کی جا رہی ہے۔
ادلب کا علاقہ سنہ 2011 سے حکومت مخالف عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی علاقے میں جاری جنگ کی وجہ سے 'ادلب' بکھر کر رہ گیا ہے۔
شامی حکومت نے صحافیوں اور سفارت کاروں کو جنگ زدہ علاقے میں تباہی کے مناظر دکھانے کے لیے بلایا تھا۔
حکومت کا دعوی ہےکہ یہ سب کچھ ان مجرمین کی وجہ سے ہو رہا ہے جو ملک میں امن نہیں چاہتے ہیں۔
حکام کے مطابق علاقہ مسلح افراد کے ما تحت ہے، جنہوں نے اپنی ہی فوج کو ہلاک کر دیا ہے۔
جنگ کے ابتدائی دور میں ادلب شہر میدان جنگ بنا ہوا تھا۔ سنہ 2012 کے مارچ ماہ میں 'فری سیرین آرمی' اور شامی افواج کے درمیان جنگ کے مناظر بے حد تباہ کن تھے۔
عسکریت پسندوں کی جماعت نہ صرف شہر بلکہ شہر کے باہری علاقوں میں بھی حکومت کے خلاف جد و جہد کر رہی تھی۔
اکتوبر سنہ 2013 میں عسکریت پسندوں نے وادی دیف میں فوجی چھاونی کو نشانہ بنایا اور توپ کی مدد سے بڑے گولے داغے تھے۔
اس کے جواب میں شامی جنگی طیاروں نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کر دی۔
مارچ سنہ 2015 میں 'نصرہ فرنٹ' نے ادلب شہر پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔
'سیرین سول ڈیفنس' کی جانب سے اگست سنہ 2015 میں ایک ویڈیو جاری کیا گیا، جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ عسکریت پسندوں پر کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔
تاہم حکومت نے کسی طرح کے کیمیکل حملے سے انکار کر دیا تھا۔
آخر کار ایک دن شامی افواج نے عسکریت پسندوں سے ادلب کو آزاد کروا کر اپنے قبضے میں لے لیا۔
یہاں تک کہ مارچ سنہ 2018 میں عسکریت پسندوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ 'حرستا' سے ہجرت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
فی الحال رواں ماہ میں ترکی صدر رجب طیب اردغان اور روسی صدر ولادیمیر پتن نے ادلب کو مسمار شدہ شہر بتایا ہے۔
اس کے ساتھ ہی روسی صدر نے ادلب کو دہشت گردوں کے لیے گرم بستر بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ادلب کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لے۔
بہر حال ادلب میں امن قائم کرنے کی تما تر کوششوں کے باوجود اب تک یہاں امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی تازہ مثال رواں ماہ 16 جولائی کو ہونے والے میں حملے سے صاف ظاہر ہے۔