پاکستان کی سپریم کورٹ نے آج پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں ایک ہجوم کے ذریعہ مندر میں کی گئی توڑ پھوڑ اور اس میں آگ لگانے کے بعد ایک صدی قدیم ہندو مندر کی تعمیر نو شروع کرنے کے لیے ایواکی پراپرٹی ٹرسٹ بورڈ (ای پی ٹی بی) کو حکم دیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، عدالت عظمیٰ نے حملے کا خود نوٹس لیا تھا اور مقامی حکام کو 5 جنوری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ بورڈ کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پورے پاکستان میں تمام فعال اور غیر فعال مندروں اور گردواروں کی تفصیلات عدالت میں پیش کرے۔
آج سماعت کے دوران، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ای پی ٹی بی کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ملک بھر کے مندروں سے تجاوزات کو ہٹائیں اور تجاوزات میں ملوث عہدیداروں کے خلاف کارروائی کریں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کرک واقعے سے 'پاکستان کو بین الاقوامی شرمندگی' ہوئی ہے۔
بتا دیں کہ ای پی ٹی بی ایک قانونی بورڈ ہے جو ہندوؤں اور سکھوں کی مذہبی املاک اور مزارات کی حفاظت کرتا ہے جو تقسیم کے بعد بھارت ہجرت کرکے چلے آئے تھے۔
سماعت کے دوران خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری، پولیس چیف اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل بھی موجود تھے۔
اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے پولیس چیف سے سوال کیا کہ جب مندر کے ساتھ ہی پولیس چوکی موجود ہے تو حملہ کیسے ہوا؟
جج نے پوچھا کہ 'آپ کی خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں؟'
پولیس چیف نے عدالت کو بتایا کہ جمعیت علماء اسلام فضل (جے یو آئی ف) کی طرف سے واقعے کے روز جائے وقوع کے قریب ایک احتجاج جاری تھا جس کی سرپرستی مولانا فیض اللہ نے کی تھی۔
احتجاج میں چھ علمائے کرام میں سے صرف مولوی محمد شریف نے بھیڑ کو اکسایا تھا۔
اہلکار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حملے میں ملوث 109 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ 92 پولیس عہدیداروں جن میں اس وقت ڈیوٹی پر تھے، پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) کو معطل کر دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس احمد نے کہا کہ 'معطلی کافی نہیں ہے'۔
جج نے ای پی ٹی بی کے چیئرمین کو بھی پھٹکار لگائی اور کہا کہ 'حکومتی ذہنیت کے ساتھ چیئرمین کی نشست پر نہیں بیٹھنا چاہئے'۔
جسٹس احمد نے ہدایت دی ہے کہ 'آپ کے ملازمین مندر کی زمین پر کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کو گرفتار کریں اور مندر کی تعمیر نو کا آغاز کریں'۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'مندر کی تعمیر نو کے لیے مولوی شریف سے رقم لی جانی چاہئے'۔
جسٹس احسن نے کہا کہ ای پی ٹی بی کے پاس 'اپنی عمارتیں بنانے کے لیے رقم ہے لیکن ہندوؤں کے لیے پیسہ نہیں ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: بورس جانسن کا 'بھارت دورہ' منسوخ
خیال رہے کہ گزشتہ روز صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک ہجوم کے ذریعہ مندر کو نذر آتش کیا گیا تھا اور مندر کو نقصان پہنچایا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے چھاپہ ماری کرتے ہوئے 109 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ مندر گزشتہ صدی کے اوائل میں پہلے ایک سمادھی کے طور پر تعمیر کیا گيا تھا۔ وہاں سنہ 1997 میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ اسی لیے پاکستانی سپریم کورٹ نے سنہ 2015 میں اس کی دوبارہ تعمیر کا حکم دے دیا تھا۔
مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان میں ہندوؤں کی مجموعی آبادی تقریبا 80 لاکھ ہے، جن میں سے بیشتر صوبہ سندھ میں رہتے ہیں۔
وہیں، صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہندو برادری کے لوگوں نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کیا تھا۔
رواں برس جولائی میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں زیر تعمیر ایک مندر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کے تناظر میں ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکومت سے مندروں کی تعمیر اور تشویش کی شکار مقامی ہندو برادری کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔