ETV Bharat / international

'پاکستان بر صغیر کے لیے ایک مصیبت' - ایف ٹی اے ایف

حکمرانوں اور حکمراں جماعتوں سے قطع نظر پاکستان نے ہمیشہ اور صرف بھارت کے خلاف شدت پسندی کی شیطانی زبان کا استعمال کیا ہے۔ یہ بھارت ملک کے پڑوسی کا واحد مقصد ہے حالانکہ اس شدت پسندی سے ہونے والی تباہی کا اثر اس کو بھی اٹھانا پڑا ہے۔

'پاکستان بر صغیر کے لیے ایک مصیبت'
author img

By

Published : Oct 23, 2019, 3:05 PM IST

Updated : Oct 23, 2019, 3:22 PM IST

اپنے بُرے عمل سے بہت زیادہ منفی اثرات کا سامنا کرنے کے باوجود ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پورے برصغیر کے لئے ایک سخت مصیبت بن گیا ہے۔

'پاکستان بر صغیر کے لیے ایک مصیبت'
'پاکستان بر صغیر کے لیے ایک مصیبت'

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گذشتہ برس پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان کی توثیق کی ہے جس میں 27 سنگین امور پاکستان کے خلاف ہے جس میں وہ شدت پسندی کی حمایت کرتا ہے۔

پاکستان نے اس ایکشن پلان کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی۔ جس کے نتیجے میں ایف اے ٹی ایف کی علاقائی وابستہ ایشیاء پیسیفک ٹیم نے اگست 2019 کے شروع میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی سختی سے سفارش کی تھی۔

حقیقت میں ایف اے ٹی ایف کو لازمی طور پر اس ملک کو ایران اور شمالی کوریا کی طرح فوری طور پر بلیک لسٹ کرنا چاہیے، اس کے بجائے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مزید 4 ماہ کی اضافی مدت کی منظوری دے دی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر جیانگ من لی نے پاکستان کو انتباہ دیا کہ وہ مقررہ وقت اگلے برس فروری تک وابستگی کے ساتھ اس ایکشن پلان کا جواب دے۔

چین، ترکی اور ملائشیا کی مدد سے اسلام آباد کو عارضی طور پر پابندی عائد کرنے سے بچایا گیا ہے۔

پرری دنیا اسی انتظار میں ہے کہ پڑوسی ملک آنے والے چار ماہ میں شدت پسندی کی کارروائیوں کی مذمت کے لئے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرے گا یا نہیں۔

جی -7 سربراہی اجلاس جو تین دہائی قبل منعقد ہوا تھا۔ اس میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا تھا کہ غیر مجاز فنڈ کی روانی بنکنگ نظام اور ممالک کے مالی استحکام کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔اس نے منی لانڈرنگ کو روکنے کے لئے ایک مستحکم مقصد کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کی تشکیل کی ہے۔

ٹاسک فورس نے ایک پختہ عزم کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا اور سنہ 1990میں ہدایت کا پہلا سٹ وجود میں آیا۔

تمام مالی وسائل کو سختی سے روک کر شدت پسندی کو ختم کرنے کے مقصد کے ساتھ سنہ 2001 میں ایف اے ٹی ایف کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی۔

سنہ 2012 سے سنہ 2015 کے درمیان پاکستان مسلسل ایف اے ٹی ایف کے گرے انڈیکس میں سرفہرست رہا ہے۔ رواں برس جون میں پھر ایک بار پاکستان اس فہرست میں داخل ہوچکا ہے۔

اصلاحی اقدامات کرنے کے باوجود پاکستان نے شاطرانہ طریقوں اور رجحانات سے بین الاقوامی برادری کی توجہ ہٹانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن اس کام میں بھی وہ ناکام رہا۔

اس نے دہشت گرد گروہ جماعت الدعوی پر پابندی عائد کردی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ اس نے پورے شدت پسند گروہوں کو فنڈز کی آمد کو مکمل طور پر روک دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا ایک زبردست پروپیگنڈا کیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ جولائی میں اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت پہلی اور اہم حکومت ہے جس نے پاکستان کی سرزمین پر عسکریت پسند گروہوں کو کنٹرول اور غیر مسلح کیا تھا۔

اسی دوران خان نے اس کے خلاف متنازع بیان دیا اور اعلان کیا تھا کہ آج بھی تقریباً 30 سے 40 ہزار عسکریت پسند پاک سرزمین پر موجود ہیں۔

دنیا کے مشہور عسکریت پسند مسعود اظہر کی پنشن سکیم کی درخواست کو قبول کرنے اور اس کی پیروی کرنے کا کریڈٹ بھی عمران حکومت نے حاصل کیا ہے۔

حال ہی میں ایف اے ٹی ایف سربراہی اجلاس نے سری لنکا ، تیونس اور ایتھوپیا کو گرے لسٹ سے خارج کردیا ہے اور اپنی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے جزیرے، میگنولیا اور زمبابوے کو شامل کیا ہے۔

بھارت کو دماغی اور مالی طور پر شکست دینے کے لئے پاکستان تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے 'کولڈ وار' میں پوری طرح مصروف ہے۔ اس کے لئے اس نے عسکریت پسند گروہوں کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی مصیبتوں کا شکار ہو رہا ہے اور دیوالیہ پن کی پست ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

پاکستان کے عسکریت پسندوں نے اپنی خارجہ پالیسی بنالی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کی ایک چوتھائی آبادی شدید غریبی سے دوچار ہے۔ 40 ملین روپے کے قرض، 3 لاکھ اور 40 ہزار لاکھوں روپے کا مالی خسارہ، مجموعی جی ڈی پی ایک برس کے عرصے میں کم ہوکر 3300 ملین ڈالر رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں فی کس جی ڈی پی میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

زراعت کی نمو آج ایک فیصد بھی نہیں ہے، افراط زر کی شرح 13 سے 15 فیصد کے درمیان ہے، یہ سب پاکستان کی معیشت کی منہدم حیثیت کی اصل اعداد و شمار ہیں۔

پاکستان اب اس پس وپیش میں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے عبوری امداد کے طور پر پیش کردہ 600 بلین ڈالر کا قرض واقعی اس قوم کے لیے فائدہ ہے یا نقصان۔

پاکستان نے اگر ایف ٹی اے ایف کی ہدایت پر غور نہیں کیا تو اس سے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگر پاکستان واقعتا خود کو معاشی خاتمے کی خستہ حالت کے بچانا چاہتا ہے تو اسے فوری طور پر اس ملک میں شدت پسند گروہوں کی مالی مدد روکنی ہوگی اور اسے اپنی سچائی کو ثابت کرنی ہوگی۔

اپنے بُرے عمل سے بہت زیادہ منفی اثرات کا سامنا کرنے کے باوجود ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پورے برصغیر کے لئے ایک سخت مصیبت بن گیا ہے۔

'پاکستان بر صغیر کے لیے ایک مصیبت'
'پاکستان بر صغیر کے لیے ایک مصیبت'

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گذشتہ برس پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان کی توثیق کی ہے جس میں 27 سنگین امور پاکستان کے خلاف ہے جس میں وہ شدت پسندی کی حمایت کرتا ہے۔

پاکستان نے اس ایکشن پلان کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی۔ جس کے نتیجے میں ایف اے ٹی ایف کی علاقائی وابستہ ایشیاء پیسیفک ٹیم نے اگست 2019 کے شروع میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی سختی سے سفارش کی تھی۔

حقیقت میں ایف اے ٹی ایف کو لازمی طور پر اس ملک کو ایران اور شمالی کوریا کی طرح فوری طور پر بلیک لسٹ کرنا چاہیے، اس کے بجائے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مزید 4 ماہ کی اضافی مدت کی منظوری دے دی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر جیانگ من لی نے پاکستان کو انتباہ دیا کہ وہ مقررہ وقت اگلے برس فروری تک وابستگی کے ساتھ اس ایکشن پلان کا جواب دے۔

چین، ترکی اور ملائشیا کی مدد سے اسلام آباد کو عارضی طور پر پابندی عائد کرنے سے بچایا گیا ہے۔

پرری دنیا اسی انتظار میں ہے کہ پڑوسی ملک آنے والے چار ماہ میں شدت پسندی کی کارروائیوں کی مذمت کے لئے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرے گا یا نہیں۔

جی -7 سربراہی اجلاس جو تین دہائی قبل منعقد ہوا تھا۔ اس میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا تھا کہ غیر مجاز فنڈ کی روانی بنکنگ نظام اور ممالک کے مالی استحکام کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔اس نے منی لانڈرنگ کو روکنے کے لئے ایک مستحکم مقصد کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کی تشکیل کی ہے۔

ٹاسک فورس نے ایک پختہ عزم کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا اور سنہ 1990میں ہدایت کا پہلا سٹ وجود میں آیا۔

تمام مالی وسائل کو سختی سے روک کر شدت پسندی کو ختم کرنے کے مقصد کے ساتھ سنہ 2001 میں ایف اے ٹی ایف کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی۔

سنہ 2012 سے سنہ 2015 کے درمیان پاکستان مسلسل ایف اے ٹی ایف کے گرے انڈیکس میں سرفہرست رہا ہے۔ رواں برس جون میں پھر ایک بار پاکستان اس فہرست میں داخل ہوچکا ہے۔

اصلاحی اقدامات کرنے کے باوجود پاکستان نے شاطرانہ طریقوں اور رجحانات سے بین الاقوامی برادری کی توجہ ہٹانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن اس کام میں بھی وہ ناکام رہا۔

اس نے دہشت گرد گروہ جماعت الدعوی پر پابندی عائد کردی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ اس نے پورے شدت پسند گروہوں کو فنڈز کی آمد کو مکمل طور پر روک دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا ایک زبردست پروپیگنڈا کیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ جولائی میں اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت پہلی اور اہم حکومت ہے جس نے پاکستان کی سرزمین پر عسکریت پسند گروہوں کو کنٹرول اور غیر مسلح کیا تھا۔

اسی دوران خان نے اس کے خلاف متنازع بیان دیا اور اعلان کیا تھا کہ آج بھی تقریباً 30 سے 40 ہزار عسکریت پسند پاک سرزمین پر موجود ہیں۔

دنیا کے مشہور عسکریت پسند مسعود اظہر کی پنشن سکیم کی درخواست کو قبول کرنے اور اس کی پیروی کرنے کا کریڈٹ بھی عمران حکومت نے حاصل کیا ہے۔

حال ہی میں ایف اے ٹی ایف سربراہی اجلاس نے سری لنکا ، تیونس اور ایتھوپیا کو گرے لسٹ سے خارج کردیا ہے اور اپنی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے جزیرے، میگنولیا اور زمبابوے کو شامل کیا ہے۔

بھارت کو دماغی اور مالی طور پر شکست دینے کے لئے پاکستان تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے 'کولڈ وار' میں پوری طرح مصروف ہے۔ اس کے لئے اس نے عسکریت پسند گروہوں کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی مصیبتوں کا شکار ہو رہا ہے اور دیوالیہ پن کی پست ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

پاکستان کے عسکریت پسندوں نے اپنی خارجہ پالیسی بنالی ہے، جس کے نتیجے میں ملک کی ایک چوتھائی آبادی شدید غریبی سے دوچار ہے۔ 40 ملین روپے کے قرض، 3 لاکھ اور 40 ہزار لاکھوں روپے کا مالی خسارہ، مجموعی جی ڈی پی ایک برس کے عرصے میں کم ہوکر 3300 ملین ڈالر رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں فی کس جی ڈی پی میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

زراعت کی نمو آج ایک فیصد بھی نہیں ہے، افراط زر کی شرح 13 سے 15 فیصد کے درمیان ہے، یہ سب پاکستان کی معیشت کی منہدم حیثیت کی اصل اعداد و شمار ہیں۔

پاکستان اب اس پس وپیش میں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے عبوری امداد کے طور پر پیش کردہ 600 بلین ڈالر کا قرض واقعی اس قوم کے لیے فائدہ ہے یا نقصان۔

پاکستان نے اگر ایف ٹی اے ایف کی ہدایت پر غور نہیں کیا تو اس سے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگر پاکستان واقعتا خود کو معاشی خاتمے کی خستہ حالت کے بچانا چاہتا ہے تو اسے فوری طور پر اس ملک میں شدت پسند گروہوں کی مالی مدد روکنی ہوگی اور اسے اپنی سچائی کو ثابت کرنی ہوگی۔

Intro:Body:

Wednesday


Conclusion:
Last Updated : Oct 23, 2019, 3:22 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.