پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے کرک میں گذشتہ ماہ مشتعل ہجوم نے ایک مندر میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی تھی بلکہ اسے آگ بھی لگا دی تھی۔ اسی سلسلے میں آج ایک اعلیٰ افسر سمیت 11 دیگر پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق، ان 12 پولیس اہلکاروں کو مندر پر حملہ کرنے پر ہجوم کو روکنے کی کوشش نہ کرنے پر 'غیر ذمہ داری اور غفلت' کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
صوبائی پولیس چیف ثناء اللہ عباسی نے بتایا کہ شمال مغربی خیبر پختونخوا میں علاقائی حکومت نے 33 دیگر پولیس افسران کو سزا کے طور پر ایک برس کے لیے معطل کر دیا ہے۔
یہ سزا حکومتی یقین دہانیوں کے درمیان ملی ہے کہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے تقریبا 85 کلومیٹر جنوب میں کرک ضلع کے دور دراز گاؤں میں واقع شری پرم ہنس جی مہاراج سمادھی مندر دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔
گذشتہ ماہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی مندر کی تعمیر نو کا حکم دیا تھا۔ اگلی سماعت 19 جنوری کو ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا میں شدید زلزلہ، 35 افراد ہلاک، 100 سے زائد زخمی
خیال رہے کہ 30 دسمبر کو تقریبا 2 ہزار افراد نے سنہ 1920 میں تعمیر کردہ تاریخی مندر اور اس سے متصل مزار پر توڑ پھوڑ کی تھی، مندر کو تباہ کرنے کے بعد اس میں آگ لگا دی گئی تھی۔
گرفتار افراد میں جمعیت علمائے اسلام پارٹی کے حامی بھی شامل ہیں جو اس وقت مختلف الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہندو مندروں پر حملے اگرچہ عام نہیں ہیں لیکن حالیہ برسوں میں تعدد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک ہجوم کے ذریعہ مندر کو نذر آتش کیا گیا تھا اور مندر کو نقصان پہنچایا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے چھاپہ ماری کرتے ہوئے 109 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ مندر گذشتہ صدی کے اوائل میں پہلے ایک سمادھی کے طور پر تعمیر کیا گيا تھا۔ وہاں سنہ 1997 میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ اسی لیے پاکستانی سپریم کورٹ نے سنہ 2015 میں اس کی دوبارہ تعمیر کا حکم دے دیا تھا۔
مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان میں ہندوؤں کی مجموعی آبادی تقریبا 80 لاکھ ہے، جن میں سے بیشتر صوبہ سندھ میں رہتے ہیں۔
رواں برس جولائی میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں زیر تعمیر ایک مندر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کے تناظر میں ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکومت سے مندروں کی تعمیر اور تشویش کی شکار مقامی ہندو برادری کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔