پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کے روز 'آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ' کے عنوان سے عوام سے لائیو ٹیلی فون پر خارجہ امور کے حوالے سے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'اگر نئی دہلی، جموں و کشمیر کی 5 اگست 2019 سے پہلے کی حیثیت بحال کرتی ہے تو پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کرے گا'۔
بھارت نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کردیا اور اسے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
عمران خان نے لوگوں کے ساتھ براہ راست سوالات اور جوابات سیشن کے دوران کہا کہ ’’اگر پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرتا ہے (بغیر کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے) تو یہ کشمیریوں سے ہماری پیٹھ پھیرنے کے مترادف ہوگا۔'
خان نے کہا کہ اگر بھارت 5 اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کو واپس لیتا ہے تو ہم یقینی طور پر بات چیت کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہم اس وقت بھارت سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے، ان کی ساری جدوجہد اور تقریباً ایک لاکھ شہدا کو نظر انداز کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہماری تجارت بہتر ہوگی لیکن کشمیر کا خون ضائع ہوجائے گا، لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں پتا ہے کہ انہوں نے کس قسم کی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں، اس لیے ان کے خون پر پاکستان کی تجارت بہتر ہوگی تو یہ نہیں ہوسکتا'۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات سے واپس جائے تو پھر بات ہوسکتی ہے،
واضح رہے کہ نئی دہلی متعدد دفعہ یہ کہتی رہی ہے کہ جموں وکشمیر ہندوستان کا جزو لاینفک ہے اور ملک خود ہی اپنے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
بھارت نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی، دشمنی اور تشدد سے پاک ماحول میں اس کے ساتھ معمول کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر ہے۔
سنہ 2016 میں پٹھان کوٹ ایئر فورس کے اڈے پر دہشت گردی کے حملے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات ناگوار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد اڑی میں ہندوستانی فوج کے کیمپ پر ایک حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے تعلقات مزید خراب ہوگئے۔
جموں وکشمیر کے خصوصی اختیارات واپس لینے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کرنے کے اعلان کے بعد تعلقات مزید بگڑ گئے۔
تاہم حال ہی میں کچھ بہتری آئی ہے جب دونوں ملکوں نے فروری میں لائن آف کنٹرول پر امن کی بحالی پر اتفاق کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تناؤ کو کم کرنے کے لئے حریف حکام بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے بات چیت کر رہے ہیں۔