نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلد انخلا پر بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتا ہے'۔
اسٹولٹن برگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی عسکریت پسندوں کے لئے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور اس کے فروغ کے ضمن میں ایک پلیٹ فارم بن سکتا ہے، جس کے لیے بڑا خطرہ نظر آرہا ہے'۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'آئی ایس آئی ایس (داعش) شام اور عراق میں پھیلنے والی عسکریت کے آثار افغانستان میں بھی دوبارہ نظر آسکتے ہے'۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'نیٹو اتحادی افغانستان میں امن عمل کی حمایت کرتا ہے۔ اس عمل کے ایک حصے کے طور پر ہم پہلے ہی اپنی موجودگی میں نمایاں تبدیلی کر چکے ہیں'۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ انہوں نے بار بار زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے فوجی دستوں کا جائزہ لیتے رہیں گے۔
'اب ہمارے پاس افغانستان میں نیٹو کے 12،000 فوجی ہیں اور ان میں سے نصف سے زیادہ غیر امریکی افواج ہیں'۔
نیٹو نے ذکر کیا کہ مزید امریکی فوجیوں کی کمی کے باوجود بھی یہ تنظیم افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت، مشورہ اور مدد کے لئے اپنا مشن جاری رکھے گی'۔
انہوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا ہے کہ 'ہم 2024 تک ان کی مالی اعانت کے لئے بھی پرعزم ہیں'۔
اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ 'ہم (نیٹو) اکٹھے افغانستان گئے تھے اور جب وقت صحیح ہے تو ہمیں مربوط اور منظم انداز میں ساتھ چھوڑنا چاہئے'۔
واضح رہے کہ پچھلے ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ کرسمس تک افغانستان میں موجود تمام ساڑھے چار ہزار امریکی فوجیوں کا انخلا ٔ کرنا چاہتے ہیں، لیکن کئی امریکی فوجی سربراہان اور قومی سلامتی کے اعلی عہدے داروں نے اس طرح کے انخلا کے خلاف مشورہ دیا ہے۔
یہ اطلاعات اس وقت سامنے آئیں جب امن کی کوششوں کے باوجود ملک میں تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
- مزید پڑھیں: طالبان کے حملے میں 12 پولس اہلکار ہلاک، 10 زخمی
دریں اثنا دوحہ میں امن مذاکرات بھی کئی اختلافات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگئے ہیں