ETV Bharat / international

میانمار میں فوج کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان

میانمار میں فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ماہ کی جنگ بندی پر یکطرفہ طور پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ ساتھ ہی فوجی قیادت نے ان اقدامات کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو حکومت کی سلامتی اور انتظامی کارروائیوں میں خلل ڈالتے ہیں۔

میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی
میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی
author img

By

Published : Apr 1, 2021, 1:08 PM IST

میانمار میں گذشتہ ماہ فوج نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ تب سے وہاں پر بدامنی قائم ہے اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میانمار کی فوج نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ماہ کی یکطرفہ جنگ بندی پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ فوج نے ان اقدامات کو مستثنیٰ کردیا ہے جو حکومت کی سلامتی اور انتظامی کارروائیوں میں خلل ڈالتے ہیں۔

میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی
میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی

یہ اعلان کم سے کم دو نسلی اقلیتی گوریلا تنظیموں کی جانب سے احتجاج میں جوش و خروش کے بعد سامنے آیا ہے جو سرحدوں کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں رہ کر اپنے آپ کو مضبوط کر رہے ہیں۔

اس طرح کے ایک درجن سے زیادہ گروہوں نے کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد مرکزی حکومت سے مسلح جدوجہد کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ امن کے اوقات میں بھی حکومت سے ان گروہوں کے تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں اور ان کی جدوجہد میں اور بھی شدت پیدا ہوجاتی ہے۔

میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی
میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی

میانمار کے شہروں اور قصبوں میں بڑے پیمانے پر پرامن مظاہرین کو پولیس اور فوجی جنگی ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے ہتھیاروں کو آزادانہ طور پر استعمال کیا ہے۔

میانمار کی اسسٹینس ایسوسی ایشن برائے پولیٹیکل قیدیوں کے مطابق، بغاوت کے بعد سے کم از کم 536 مظاہرین اور راہگیروں کو پولیس اور فوج کی زیادتی کے بعد ہلاک کیا گیا ہے، جو ان کے قانونی دستاویزات کے بارے میں ریکارڈ رکھتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد واقعی زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ہوئے مظاہرے میں اب تک ہلاکتوں کی تصدیق 536 سے تجاوز کر گئی ہے۔

یاد رہے کہ میانمار میں بغاوت مخالف مظاہرین پولیس اور فوجیوں کو کھلا راستہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ مظاہرین کے خلاف روزانہ مہلک طاقت کے استعمال کے باوجود وہ جمہوریت کی واپسی کے مطالبے کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں حالانکہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔

سیاسی قیدیوں کے لئے معاونت ایسوسی ایشن نے اب تک ملک بھر میں 536 اموات کی تصدیق کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ بہت سارے معاملے میں ابھی تک تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ اس بغاوت کے بعد سے اب تک 4،665 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 3،290 افراد حراست میں لئے گئے ہیں۔

فروری کی پہلی تاریخ کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ہوئے مظاہرے میں اب تک ہلاکتوں کی تصدیق 536 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس دوران بڑی تعداد میں مظاہرین کی لاشوں کو سکیورٹی فورسز نے اپنے قبضے میں بھی لے لیا ہے جس سے اس کا مکمل اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ساتھ ہی میڈیا والوں کو بھی پوری خبر موصول نہیں ہو پارہی ہے کیونکہ ملک میں فوجی حکومت کے دوران میڈیا پر بھی کئی طرح کی پابندیاں اور سختیاں عائد کی گئی ہیں۔

میانمار میں گذشتہ ماہ فوج نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ تب سے وہاں پر بدامنی قائم ہے اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میانمار کی فوج نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ماہ کی یکطرفہ جنگ بندی پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ فوج نے ان اقدامات کو مستثنیٰ کردیا ہے جو حکومت کی سلامتی اور انتظامی کارروائیوں میں خلل ڈالتے ہیں۔

میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی
میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی

یہ اعلان کم سے کم دو نسلی اقلیتی گوریلا تنظیموں کی جانب سے احتجاج میں جوش و خروش کے بعد سامنے آیا ہے جو سرحدوں کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں رہ کر اپنے آپ کو مضبوط کر رہے ہیں۔

اس طرح کے ایک درجن سے زیادہ گروہوں نے کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد مرکزی حکومت سے مسلح جدوجہد کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ امن کے اوقات میں بھی حکومت سے ان گروہوں کے تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں اور ان کی جدوجہد میں اور بھی شدت پیدا ہوجاتی ہے۔

میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی
میانمار میں احتجاجیوں کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی

میانمار کے شہروں اور قصبوں میں بڑے پیمانے پر پرامن مظاہرین کو پولیس اور فوجی جنگی ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے ہتھیاروں کو آزادانہ طور پر استعمال کیا ہے۔

میانمار کی اسسٹینس ایسوسی ایشن برائے پولیٹیکل قیدیوں کے مطابق، بغاوت کے بعد سے کم از کم 536 مظاہرین اور راہگیروں کو پولیس اور فوج کی زیادتی کے بعد ہلاک کیا گیا ہے، جو ان کے قانونی دستاویزات کے بارے میں ریکارڈ رکھتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد واقعی زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ہوئے مظاہرے میں اب تک ہلاکتوں کی تصدیق 536 سے تجاوز کر گئی ہے۔

یاد رہے کہ میانمار میں بغاوت مخالف مظاہرین پولیس اور فوجیوں کو کھلا راستہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ مظاہرین کے خلاف روزانہ مہلک طاقت کے استعمال کے باوجود وہ جمہوریت کی واپسی کے مطالبے کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں حالانکہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔

سیاسی قیدیوں کے لئے معاونت ایسوسی ایشن نے اب تک ملک بھر میں 536 اموات کی تصدیق کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ بہت سارے معاملے میں ابھی تک تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ اس بغاوت کے بعد سے اب تک 4،665 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 3،290 افراد حراست میں لئے گئے ہیں۔

فروری کی پہلی تاریخ کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ہوئے مظاہرے میں اب تک ہلاکتوں کی تصدیق 536 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس دوران بڑی تعداد میں مظاہرین کی لاشوں کو سکیورٹی فورسز نے اپنے قبضے میں بھی لے لیا ہے جس سے اس کا مکمل اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ساتھ ہی میڈیا والوں کو بھی پوری خبر موصول نہیں ہو پارہی ہے کیونکہ ملک میں فوجی حکومت کے دوران میڈیا پر بھی کئی طرح کی پابندیاں اور سختیاں عائد کی گئی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.