عراق کے موصل شہر داعش کے خاتمے کے تین برس بعد بھی قدیم علاقے میں تباہی کے نشانات آج بھی زندہ ہیں۔
ان ملبوں کو دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہاں تین برس قبل کسی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ موصل کا قدیم شہر داعش اور بین الاقوامی حمایت یافتہ عراقی فوج کے مابین شدید جنگ کا منظر تھا۔
یہاں واپس لوٹ چکے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ تعمیر نو کا کچھ کام غیر سرکاری تنظیموں بالخصوص اقوام متحدہ نے کیا ہے۔ اس باز آبادکاری کے لیے مقامی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
موصل شہر جون سنہ 2014 میں شدت پسند تنظیم 'داعش' کے قبضے میں آیا اور عراقی سیکیورٹی فورسز نے جولائی سنہ 2017 میں اسے آزاد کرا لیا تھا۔
داعش سے آزادی کے تین برس بعد بھی یہ شہر اب تک بجلی، پانی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
شہر کے تباہ شدہ 5 پلوں میں سے محض دو پلوں کو ہی دوبارہ تعمیر کیا جا سکا ہے۔ ان میں سے ایک کو عالمی بینک کے تعاون سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔
سرمایہ کاری اور فنڈ کی کمی نے تعمیر نو کی کوششوں کو سست کردیا ہے، کیونکہ صوبہ نینوا سمیت آزاد علاقوں میں سیاسی اتھل پتھل اور سنہ 2019 میں 5 ماہ تک احتجاج ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں ہو پا رہی ہے۔
وہیں دوسری جانب مشرقی موصل میں صورتحال بہتر ہے، کیوں کہ شہر کے اس حصے میں کم تباہی ہوئی تھی۔ یہاں بازار، اسکولز اور سرکاری اداروں کے کھلنے کے سبب اس علاقے کی معیشت کو تقویت ملی ہے۔
قدیم موصل کے بیشتر باشندے بے گھر ہو کر کیمپز میں زندگی گذار رہے ہیں، یا مشرقی موصل میں کرائے کے مکانوں میں رہنے کا مجبور ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں واپس نہیں جاسکتے کیونکہ ان کے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور ان میں دوبارہ تعمیر کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔