عراق کے موصل کو دو برس قبل داعش کے شدت پسندوں سے آزاد کرایا گیا تھا۔ لیکن موصل میں اب بھی 3 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہیں۔
ان میں سے اکثر افراد کیمپز میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ وہ شناختی کارڈز کے گم ہو جانے اور سست رفتاری سے کیے جا رہے تعمیراتی کام کی وجہ سے اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکتے ہیں۔
موصل میں واقع 'حمام العلیل' کیمپ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گذارنے والے محمد حسن نامی شخص کا کہنا ہے کہ قدیم علاقے میں بنیادی سہولیات اور دوبارہ ہونے والے تعمیراتی کاموں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ یہاں طبی اور بجلی سے متعلق سہولیات کا فقدان ہے۔ اور یہ سب کچھ حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ہے۔ حکومت شہریوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
جنگ کے دوران تقریبا 1 لاکھ 40 ہزار گھروں کو تباہ کر دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'ناروجین ریفیوجی کونسل' حکومت سے مسلسل مطالبہ کرتی رہی ہے کہ عراقی حکومت تباہ کیے گئے گھروں کو دوبارہ سے تعمیر کرائے۔
عراق میں کوسٹا میڈیا کو آرڈینیٹر ٹام پیری کا کہنا ہے کہ اکثر لوگوں کے گھروں کو تباہ کر دیا گیا ہے، جسے حکومت کی مدد کے بغیر دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لوگ خود سے اپنےگھروں کی تعمیر کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
غور طلب ہے کہ ضلع موصل میں 3 لاکھ لوگ اب تک بے گھر ہیں، اور ان کے پاس لوٹنے کے لیے کوئی گھر نہیں ہے۔ اس طرح یہ اعداد و شمار عراق کے 16 لاکھ بے گھر افراد کا پانچواں حصہ ہے۔