بہت سے افغان خاندان جن کی کبھی مستحکم آمدنی ہوا کرتی تھی آج وہ مایوسی میں ڈوب گئے ہیں اور وہ اس بارے میں غیر یقینی ہے کہ وہ اپنے اگلے کھانے کی ادائیگی کیسے کریں گے۔
پچھلی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت ملک کی معیشت پہلے ہی سے خراب تھی لیکن اب کورونا وائرس اور خشک سالی دونوں کی وجہ سے معیشت مزید خراب ہوگئی ہے، جس نے خوراک کی قیمتوں کو کافی زیادہ بڑھا دیا۔
اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد عالمی برادری نے حکومت اور بہت سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز بند کر دیے، جس سے متوسط طبقے کے زیادہ تر افراد کو کمپنی سے باہر نکال دیا گیا جن کی ملازمتیں باہر کے پیسوں پر منحصر تھیں۔
اقوام متحدہ نے انتباہ کیا تھا کہ لاکھوں لوگ قحط سالی کی وجہ سے پریشان ہیں جس کے بعد ورلڈ فوڈ پروگرام نے ایسے خاندانوں کے لیے براہ راست امداد میں اضافہ کیا ہے۔
ہفتے کے آخر میں کابل کے ایک مغربی محلے کے جمنازیم میں سیکڑوں مرد اور عورتیں قطار میں کھڑے ہیں تاکہ وہ امدادی رقوم حاصل کرسکیں۔
مدد کے لیے قطار میں کھڑی ایک خاتون نے عطیہ دہندگان پر زور دیا کہ وہ ضرورت مند رہائشیوں کو غربت سے نکالنے میں مزید مدد کریں۔
گزشتہ سال ورلڈ فوڈ پروگرام نے نو ملین افراد کو امداد فراہم کی تھی، اس سال اب تک یہ تعداد 14 ملین کے قریب پہنچ چکی ہے۔
اگلے سال ایجنسی کا مقصد 23 ملین سے زیادہ لوگوں کو امداد فراہم کرنا ہے اور اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ 220 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- افغانستان: تقریبا 10 لاکھ بچےغذائی قلت کی وجہ سے مرنے کے دہانے پر
- افغانستان میں انسانی زندگی کے ممکنہ بحران پر تشویش، امداد کی سخت ضرورت
- افغانستان معاشی بحران کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی کے مسائل سے بھی دوچار
ڈبلیو ایف پی کے فیلڈ مانیٹر داؤد غزنوی کا کہنا ہے، ہم 1,000 خاندانوں کی توقع کر رہے ہیں اور ہم ہر خاندان کو دو ماہ کے لیے 7,000 افغانی (تقریباً $76) ادا کریں گے۔ یہ امداد کابل کے 14ویں ضلع میں چار ماہ کے لیے ہو گی اور ہم اسے دو شکلوں میں تقسیم کرتے ہیں، پہلے ہم نے کھانا تقسیم کیا اور اب ہم نقد رقم تقسیم کر رہے ہیں جس کے تحت ہر خاندان کو 7000 افغانی تقریباً $76 دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ اور دیگر بین الاقوامی عطیہ دہندگان اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے انسانی امداد کے لیے افغانستان میں رقم بھیج رہے ہیں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ رقم طالبان حکومت کے خزانے میں نہ جائے۔
یو این ڈیولپمنٹ پروگرام، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسیف ملک بھر میں ڈاکٹروں اور نرسوں کو براہ راست تنخواہیں ادا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ صحت کے شعبے کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام خاندانوں کو براہ راست نقد اور خوراک فراہم کر رہا ہے تاکہ ملک کے لوگوں کی پریشانی کم کی جاسکے۔