دو عشروں سے زائد ایام میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن معاہدوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب تک حالات پُر امن نہیں ہو سکے ہیں۔
سنہ 1993 میں امریکی صدر بل کلنٹن کی سرپرستی میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے درمیان فلسطین اور اسرائیل میں امن قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس کا نام 'اوسلو اکارڈ' رکھا گیا تھا۔
اس معاہدے کا مقصد ویسٹ بینک اور غزہ پٹی کے علاقوں کو بنیاد بنا کر فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔
تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود آخر کار سنہ 2000 میں امریکہ، اسرائیل اور یاسر عرفات کی تنظیم 'پی ایل او' نے مشترکہ طور پر اوسلو اکارڈ کے ناکام ہونے کا اعلان کر دیا۔
مزید پڑھیں: خصوصی رپورٹ: فلسطین اور اسرائیل کی پوری کہانی
اس اعلان کے بعد ہی فلسطین کے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء نے ایک بارہ پھر 'انتفادہ' کی شروعات کی۔
اس مہم کے تحت طلبا نے تقریبا ساڑھے چار برس تک تشدد اور پتھر بازی کے سہارے اسرائیل پر دباو بنانے کی کوشش کی، تاکہ اسرائیل، فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرے، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی، اور اس کوشش کے نتیجے میں بیشمار فلسطینی نوجوان اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
آخر کار سنہ 2020 میں ایک بار پھر امن کی کوشش کی گئی ہے۔ اس بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کو آگے بڑھایا ہے، لیکن فلسطینیوں کو ٹرمپ کی یہ امن ڈیل بالکل پسند نہیں ہے۔
اس معاہدے کے آنے کے بعد سے ہی فلسطین میں زبردست مخالفت ہو رہی ہے۔ ہر چہار جانب ہنگامہ بپا ہے، لیکن ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اس کو امن کی ڈیل اور اہم ڈیل قرار دے رہے ہیں۔
اب دیکھنے والی بات ہو گی کہ اس امن ڈیل سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اور اس سے کچھ امن بحال ہو سکے گا یا نہیں۔