طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کی تشکیل دینے کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خواتین کے حقوق کے لیے ہونے والے ایک احتجاج میں شامل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان نے ہوائی فائرنگ کی اور خواتین کو احتجاج کے مقام سے جانے پر مجبور کر دیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مشرقی کابل میں ایک ہائی اسکول کے باہر 6 خواتین پر مشتمل ایک گروپ لڑکیوں کی سیکنڈری اسکولز میں واپسی کا مطالبہ کررہا تھا۔
مظاہرین میں سے 2 خواتین نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر نعرے درج تھے ’ہمارے قلم نہ توڑو، ہماری کتابیں نہ جلاؤ، ہمارے اسکولز بند نہ کرو‘ جسے بعد میں طالبان محافظوں نے ان سے چھین لیا۔
جب خواتین مظاہرین نے احتجاج کو جاری رکھنے کی کوشش کی تو انہوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا جبکہ ایک غیر ملکی صحافی کو رائفل سے مارا اور فلم بندی سے روک دیا گیا۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں نے دیکھا کہ ایک طالبان جنگجو نے اپنے خودکار ہتھیار سے ہوا میں گولی چلائی، جس پر ’افغان خواتین رضاکاروں کی خودکار تحریک‘ نام کے گروپ سے تعلق رکھنے والی مظاہرین نے اسکول میں پناہ لے لی۔
طالبان محافظ مولوی نصرت اللہ، جنہوں نے اس گروپ کی قیادت کی اور خود کو کابل میں اسپیشل فورسز کا سربراہ بتایا، کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے ’اپنے احتجاج کے سلسلے میں سیکیورٹی حکام کے ساتھ تعاون نہیں کیا‘۔
انہوں نے کہا کہ انہیں دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن پہلے سیکیورٹی اداروں کو مطلع کرنا چاہیے تھا۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک بھر کے شہروں میں متعدد ریلیاں نکالی گئیں جن میں خواتین پیش پیش تھیں، ہرات میں ایسی ہی ایک ریلی میں 2 افراد مارے گئے تھے۔
تاہم حکومت کی جانب سے مظاہروں کو غیر قانونی قرار دینے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے ’سخت قانونی کارروائی‘ کے انتباہ کے بعد سے احتجاج میں کمی آئی ہے۔
لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولز جانے سے روکنے کے اقدام کو 2 ہفتے ہوچکے ہیں، طالبان شرعی قانون کی سخت تشریح پر عمل کرتے ہیں جو مردوں اور عورتوں کو الگ کرتا ہے اور کام تک خواتین کی رسائی کو بھی کم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے کلاس رومز میں واپس آنے سے پہلے انہیں درست طریقے سے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس حوالے سے بہت سے افغان شکوک و شبہات کے شکار ہیں۔