فلسطینی قیدیوں کے حقوق کی مہم چلانے والے 49 سالہ مہر الاخراس گذشتہ 77 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اسرائیل کی انتظامی نظر بند پالیسی کے تحت انہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔
مہر الاخراس جولائی کے اواخر سے ہی اپنی گرفتاری اور انتظامی حراست کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
انتظامی نظربند ایک اسرائیلی پالیسی ہے، جس کے تحت الزامات کے بغیر ہی کسی بھی مشتبہ عسکریت پسند کو حراست میں لیا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات اس انتظامی نظر بند کا دائرہ متعدد توسیعات کے ساتھ کئی ماہ تک ہو جاتا ہے۔
اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین سمیت، الاخراس کے اسرائیلی حامیوں نے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی شہر رحوووت میں احتجاج کیا۔
اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل عادل عامر کا کہنا ہے کہ اگر انہیں فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا تو ان کی زندگی کے لیے واضح خطرہ ہے۔
الاخراس کی اہلیہ تحرید نے بتایا کہ ان کے شوہر صرف پانی پر ہی زندہ ہیں۔ وہ اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ بول سکتے ہیں اور نہ ہی باتھ روم جا سکتے ہیں۔
ایک طبی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خفیہ طبی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی حالت مستحکم ہے، تاہم مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
ایک یہودی ربی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا 'میں یہاں انتظامی حراست کے خلاف احتجاج کر رہا ہوں جس نے انہیں اتنے عرصے سے اور کئی بار جیل میں رکھا ہے اور یہ غیر جمہوری عمل ہے'۔
اسرائیل کی شن بیٹ سیکیورٹی ایجنسی نے کہا کہ الاخراس کو اس اسلامی جہاد عسکریت پسند گروپ میں سرگرم ہونے کی اطلاع پر 27 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے، جو عوام کے تحفظ کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
حالانکہ الاخراس کی اہلیہ نے کہا کہ وہ کسی گروپ میں سرگرم کارکن نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لئے مہم چلائی ہے۔
فلسطینیوں اور انسانی حقوق کے گروپز کا کہنا ہے کہ انتظامی حراست سے ڈیو پروسیس کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، کیونکہ قیدی سے ثبوت روکے جاتے ہیں جبکہ انھیں طویل عرصے تک الزامات، مقدمے کی سماعت یا سزا سنائے بغیر رکھا جاتا ہے۔