ETV Bharat / international

ڈیل آف دی سنچری: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدہ

جے کے ترپاٹھی نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارت کے درمیان ہوئے معاہدے پر کہا ہے کہ اگر پاکستان اس ڈیل کی حمایت کرے گا تو وہ اپنے ساتھیوں جیسے کہ ترکی، ملیشیاء اور ایران کو کھودے گا۔ لیکن اگر وہ اس ڈیل کی حمایت نہیں کرے گا تو اس کے نتیجے میں مسلم دُنیا کی قیادت کرنے کی اس کی خواہش ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جائے گی۔ دوسری جانب اس ڈیل کی مخالفت کرنے کی صورت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے۔ پہلے ہی ان دو ممالک نے پاکستان کو قرضوں کی فراہمی اور ادھار پر تیل مہیا کرنا بند کردیا ہے۔ ڈیل کو مسترد کرنے کی صورت میں پاکستان کو ان ممالک کی طرف سے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

author img

By

Published : Aug 17, 2020, 3:54 PM IST

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدہ
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدہ

13 اگست کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کا اعلان کیا۔ جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں اس معاہدے کو ’’تاریخی ‘‘ اور ’’صدی کا اہم معاہدہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی رو سے اسرائیل اُن علاقوں پر اپنی حاکمیت کے دعوے سے دستبردار ہوگا، جن کی نشاندہی اس امن منصوبے کے تحت کی جاچکی ہے۔ دونوں ممالک سفارتی تعلقات قائم کریں گے اور دونوں ممالک فی الوقت جاری وبا سے لڑیں گے اور ویکسین تیار کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ معاہدے کے مطابق مسلم زائرین کو یروشلم جانے اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ امریکا اور اسرائیل دونوں مشرقِ وسطیٰ کے لئے مشترکہ اسٹریٹجیک ایجنڈا طے کریں گے۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے منظر عام پر لایا گیا یہ معاہدہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور متحدہ عرب امارات کے کراون پرنس شیخ محمد بن زیاد آل نہیان کے درمیان مذاکرات اور مسلسل غور و فکر کے بعد ہی طے پایا گیا ہے۔ ان مذاکرات کی داغ بیل اس سال 28 جنوری کو اُس وقت پڑی تھی، جب صدر ٹرمپ نے وہائٹ ہاوس میں دونوں فریقین کے لئے استقبالیہ کی تقریب میں ’’امن منصوبہ‘‘ کا خاکہ پیش کیا تھا۔

اگلے تین ہفتوں میں فریقین ملاقات کے دوران سرمایہ کاری، سیاحت، سیکورٹی، ہوا بازی، توانائی، صحت عامہ، تمدنی تبادلوں، ماحولیات اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے موضوعات پر معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ تاہم متحدہ عرب امارات نے یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ وہ تب تک یروشلم میں اپنا سفارتخانہ نہیں کھولے گا، جب تک فلسطین۔اسرائیل مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ہے۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں مغربی کنارے پر اپنی حاکمیت کی توسیع کا اپنا منصوبہ اب التو میں رکھا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریقین اپنے اپنے ممالک میں تنقید سے بچنے کےلئے پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔ حالیہ ایام میں رونما ہونے والے واقعات سے پہلے ہی یہ عندیہ ملا ہے کہ خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیل کے تئیں اپنے رویے میں لچک لائی گئی ہے۔ اس ضمن میں کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ جیسے کہ نیتن ہایو نے گزشتہ سال متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ متحدہ عرب امارات خطے میں مشترکہ دُشمن یعنی ایران کا اثرو نفوذ ختم کرنے کےلئے پچھلی دو دہائیوں سے انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ فلسطین کاز کےلئے معاونت کرنے والے ممالک کی جانب سے تھکن کا اظہار بھی سعودی کراون پرنس سلمان اسرائیل تسلیم کرنے کا عندیہ ہے۔ اسرائیلی تاجروں کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے معاملے پر اختلاف رائے دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ خلیجی ممالک رفتہ رفتہ یہودی ریاست کے ساتھ مفاہمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

جہان تک دیگر ممالک کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کا تعلق ہے، وہ در اصل ان ممالک کی اعلانیہ خارجہ پالیسیوں کے تناظر میں سامنے آرہا ہے۔

اس ڈیل سے تعلق رکھنے والے تینوں فریق پُر جوش ہیں تاہم اسرائیل میں دائیں بازو کی تنظیموں نے نیتن یاہو پر اُنہیں دھوکہ دینے کا الزام لگایا ہے۔ خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) میں شامل سب سے بڑے ملک یعنی سعودی عرب نے ابھی تک اس ڈیل پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ شاید وہ اس ضمن میں دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ رشتوں کے تناظر میں فی الحال اس نئی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔ تاہم لگتا ہے کہ امریکا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سعودی عرب کے قریبی تعلقات کے پیش نظر سعودی عرب اس ڈیل کی مخالفت نہیں کرے گا۔ قطر اور بحرین نے اس ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم کویت، جو فلسطین کی بھر پور حمایت کررہا ہے، اپنے ردعمل کا اظہار کرنے میں مزید کچھ وقت لے گا۔ اومان نے اس معاہدے کی پشت پناہی کی ہے۔ مصر اور جارڈن کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی سفارتی تعلقات تھے، اس لئے وہ لازمی طور پر اس ڈیل کی حمایت کریں گے۔ مسلم دُنیا واضح طور پر اس معاملے میں بٹا ہوا ہے۔ جبکہ فلسطین نے حسب توقع اس ڈیل کو مسترد کردیا ہے۔ حماس نے اس ڈیل کے بارے میں کہا کہ یہ صیہونی بیانیہ کے حق میں ہے۔ ایران نے اس ڈیل کو ’سٹریٹجیک بے وقوفی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ترکی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کےساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھنے پر از سر نو غور کرے گا۔ ترکی نے اس ڈیل کو ’منافقانہ‘ قرار دیا ہے۔ ملیشیاء نے اس ڈیل کو جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ تاہم انڈونیشیا نے ابھی تک اس پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس ضمن میں اس کا رویہ متجسس ہے۔ وہ تذبذب میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس ڈیل کے ’دور رس نتائج ‘ ہونگے اور وہ اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ بھارت اور چین دونوں نے اس ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ بڑے مغربی ممالک نے حسب توقع اس ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ڈیل کے نتیجے میں کس کو کیا ملا ہے؟ پہلے امریکا کی بات کریں گے۔ امریکا کو اس ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ امریکا نے پہلے افغان۔طالبان کے درمیان ڈیل کرائی اور اب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدہ کرایا۔ ٹرمپ کو آنے والے انتخابات کا اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔ اسرائیلی لابی، جو امریکی معیشت کے حوالے سے اپنا اثرو نفوذ رکھتی ہے، اس ڈیل کی وجہ سے ٹرمپ کی حمائت میں کھڑی ہوگی۔ کیا پتہ 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ ایکارڈ کی طرح اس امن ڈیل کے نتیجے میں فریقین نوبل پیس پرائز حاصل کریں اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے عادی ٹرمپ اس کا کریڈیٹ لیں گے۔

اس ڈیل کی وجہ سے نہ صرف متحدہ عرب امارات بلکہ اسکے پڑوسی ممالک کا درد سر بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ ڈیل متحدہ عرب امارات کو اس خطے میں ’’مڈل پاور‘‘ کے بطور ابھرنے کی خواہش کے حق میں بھی ہے اور اس کی وجہ سے اسے اپنی خود مختار خارجہ پالیسی، جس میں سعودی عرب کا عمل دخل نہ ہو، کی شروعات (جس کا عندیہ اُس وقت بھی ملا جب متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی پرواہ کئے بغیر ہی یمن سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا) کرنے کا ایک موقعہ بھی فراہم ہوگا۔ سعودی عرب اور اومان آہستگی سے لیکن مسلسل ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے۔ چونکہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کم ہورہے ہیں (ویسے بھی توانائی کے متبادل ذرائع پیدا ہوجانے کے ساتھ ہی تیل کے یہ ذخائر مزید بے وقعت ہوجائیں گے)، ایسی صورتحال میں سعودی عرب کو اپنی معیشت کے استحکام کےلئے اپنے وسیع و عریض زمینی رقبے سے استفادہ حاصل کرنا ہوگا۔ خلیجی تعاون ممالک (جی سی سی) کے مقابلے میں اومان کے پاس برائے نام ہی تیل کے ذخائر ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ خلیجی ممالک میں سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والے دوسرے بڑے ملک کے طور پر شمار ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود اومان کو بھی اپنی زمین کا سود مند استعامل کرنا ہوگا۔ چونکہ اسرائیل کے پاس بنجر زمین کو زرخیز زمین میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی اور ماہرت حاصل ہے، اس لئے ان دونوں ممالک کو اسرائیل کی مدد فراہم ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل بہتر انٹیلی جنس نیٹ ورک اور دفاعی اسلحہ کی پیداوار کا حامل ملک ہے، اس لئے اس کی وجہ سے خیلجی ممالک کو فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اور وہ ایران کے متوقع حملوں سے نمٹنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے، اس ڈیل کی وجہ سے وہ واضح طور پر نقصان میں ہے۔ اسے اب صرف اس بات پر اکتفا کرنا پڑے گا کہ اس ڈیل کے نتیجے میں اسرائیل اس کی مزید زمینیں نہیں ہڑپ سکتا ہے۔ اس ڈیل کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اب امارات فلسطین کاز کی معاونت نہیں کریں گے۔ جن مسلم ممالک نے ابھی تک اس ڈیل کی حمایت نہیں کی ہے، ممکنہ طور پر وہ اس کی حمائت کریں گے۔ اگر ایسا ہوگا تو مسلم دُنیا میں ترکی کے دوستوں کی تعداد گھٹ جائے گی۔ اسی طرح ایران بھی اپنے گرد نواح میں ان ممالک کو پائے گا، جو اس کے دوست نہیں ہیں۔ ایران کے ان پڑوسی ممالک میں عراق، خیلجی ممالک، افغانستان اور ناقابل بھروسہ پاکستان شامل ہیں۔ اس نئی ابھرتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کے پاس دو بُرے متبادل ہیں۔ چونکہ سعودی عرب مذہبی اور معاشی حوالوں سے مسلم دُنیا کی قیادت کررہا ہے، لیکن اب پاکستان ایک نیو کلیئر قوت ہونے کے نام پر مسلمانوں کی سیاسی قیادت کرنے کا متمنی ہے۔

اگر پاکستان اس ڈیل کی حمایت کرے گا تو وہ اپنے ساتھیوں جیسے کہ ترکی، ملیشیاء اور ایران کو کھودے گا۔ لیکن اگر وہ اس ڈیل کی حمایت نہیں کرے گا تو اس کے نتیجے میں مسلم دُنیا کی قیادت کرنے کی اس کی خواہش ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جائے گی۔ دوسری جانب اس ڈیل کی مخالفت کرنے کی صورت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے۔ پہلے ہی ان دو ممالک نے پاکستان کو قرضوں کی فراہمی اور ادھار پر تیل مہیا کرنا بند کردیا ہے۔ ڈیل کو مسترد کرنے کی صورت میں پاکستان کو ان ممالک کی طرف سے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی شہری ایک بڑی تعداد میں مقیم ہیں، جو اپنے ترسیلات زر کے ذریعے اپنے ملک کی مدد کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان دیوالیہ نکالے گا اور چین (جس نے پہلے ہی ڈیل کی حمایت کی ہے) بھی اپنے غریب دوست یعنی پاکستان کو قرضے فراہم نہیں کرے گا۔چین، جس کی خیلجی ممالک میں کافی سرمایہ کاری ہے، اپنی معاشی پالیسیاں احتیاط سے طے کرے گا۔

اس معاملے میں بھارت کو خوش ہوجانا چاہیے کیونکہ اب اسے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے اسرائیل کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے لئے ہماری اخلاقی اور سیاسی حمایت ابھی بھی جاری رہ سکتی ہے۔

اس سب کے باوجود، واضح صورتحال آنے والے دنوں میں سامنے آئے گی۔ مستقبل قریب میں ایک نیا جیو پولٹیکل سیاسی منظر نامہ ابھرے گا، جس کے اثرات نہ صرف اس خطے پر مرتب ہونگے بلکہ اس کا اثر عالمی سطح پر بھی دیکھنے کو ملے گا۔

13 اگست کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کا اعلان کیا۔ جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں اس معاہدے کو ’’تاریخی ‘‘ اور ’’صدی کا اہم معاہدہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی رو سے اسرائیل اُن علاقوں پر اپنی حاکمیت کے دعوے سے دستبردار ہوگا، جن کی نشاندہی اس امن منصوبے کے تحت کی جاچکی ہے۔ دونوں ممالک سفارتی تعلقات قائم کریں گے اور دونوں ممالک فی الوقت جاری وبا سے لڑیں گے اور ویکسین تیار کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ معاہدے کے مطابق مسلم زائرین کو یروشلم جانے اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ امریکا اور اسرائیل دونوں مشرقِ وسطیٰ کے لئے مشترکہ اسٹریٹجیک ایجنڈا طے کریں گے۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے منظر عام پر لایا گیا یہ معاہدہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور متحدہ عرب امارات کے کراون پرنس شیخ محمد بن زیاد آل نہیان کے درمیان مذاکرات اور مسلسل غور و فکر کے بعد ہی طے پایا گیا ہے۔ ان مذاکرات کی داغ بیل اس سال 28 جنوری کو اُس وقت پڑی تھی، جب صدر ٹرمپ نے وہائٹ ہاوس میں دونوں فریقین کے لئے استقبالیہ کی تقریب میں ’’امن منصوبہ‘‘ کا خاکہ پیش کیا تھا۔

اگلے تین ہفتوں میں فریقین ملاقات کے دوران سرمایہ کاری، سیاحت، سیکورٹی، ہوا بازی، توانائی، صحت عامہ، تمدنی تبادلوں، ماحولیات اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے موضوعات پر معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ تاہم متحدہ عرب امارات نے یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ وہ تب تک یروشلم میں اپنا سفارتخانہ نہیں کھولے گا، جب تک فلسطین۔اسرائیل مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ہے۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں مغربی کنارے پر اپنی حاکمیت کی توسیع کا اپنا منصوبہ اب التو میں رکھا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریقین اپنے اپنے ممالک میں تنقید سے بچنے کےلئے پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔ حالیہ ایام میں رونما ہونے والے واقعات سے پہلے ہی یہ عندیہ ملا ہے کہ خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیل کے تئیں اپنے رویے میں لچک لائی گئی ہے۔ اس ضمن میں کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ جیسے کہ نیتن ہایو نے گزشتہ سال متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ متحدہ عرب امارات خطے میں مشترکہ دُشمن یعنی ایران کا اثرو نفوذ ختم کرنے کےلئے پچھلی دو دہائیوں سے انٹیلی جنس شیئرنگ کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ فلسطین کاز کےلئے معاونت کرنے والے ممالک کی جانب سے تھکن کا اظہار بھی سعودی کراون پرنس سلمان اسرائیل تسلیم کرنے کا عندیہ ہے۔ اسرائیلی تاجروں کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے معاملے پر اختلاف رائے دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ خلیجی ممالک رفتہ رفتہ یہودی ریاست کے ساتھ مفاہمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

جہان تک دیگر ممالک کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کا تعلق ہے، وہ در اصل ان ممالک کی اعلانیہ خارجہ پالیسیوں کے تناظر میں سامنے آرہا ہے۔

اس ڈیل سے تعلق رکھنے والے تینوں فریق پُر جوش ہیں تاہم اسرائیل میں دائیں بازو کی تنظیموں نے نیتن یاہو پر اُنہیں دھوکہ دینے کا الزام لگایا ہے۔ خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) میں شامل سب سے بڑے ملک یعنی سعودی عرب نے ابھی تک اس ڈیل پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ شاید وہ اس ضمن میں دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ رشتوں کے تناظر میں فی الحال اس نئی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔ تاہم لگتا ہے کہ امریکا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سعودی عرب کے قریبی تعلقات کے پیش نظر سعودی عرب اس ڈیل کی مخالفت نہیں کرے گا۔ قطر اور بحرین نے اس ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم کویت، جو فلسطین کی بھر پور حمایت کررہا ہے، اپنے ردعمل کا اظہار کرنے میں مزید کچھ وقت لے گا۔ اومان نے اس معاہدے کی پشت پناہی کی ہے۔ مصر اور جارڈن کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی سفارتی تعلقات تھے، اس لئے وہ لازمی طور پر اس ڈیل کی حمایت کریں گے۔ مسلم دُنیا واضح طور پر اس معاملے میں بٹا ہوا ہے۔ جبکہ فلسطین نے حسب توقع اس ڈیل کو مسترد کردیا ہے۔ حماس نے اس ڈیل کے بارے میں کہا کہ یہ صیہونی بیانیہ کے حق میں ہے۔ ایران نے اس ڈیل کو ’سٹریٹجیک بے وقوفی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ترکی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کےساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھنے پر از سر نو غور کرے گا۔ ترکی نے اس ڈیل کو ’منافقانہ‘ قرار دیا ہے۔ ملیشیاء نے اس ڈیل کو جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ تاہم انڈونیشیا نے ابھی تک اس پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس ضمن میں اس کا رویہ متجسس ہے۔ وہ تذبذب میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس ڈیل کے ’دور رس نتائج ‘ ہونگے اور وہ اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ بھارت اور چین دونوں نے اس ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ بڑے مغربی ممالک نے حسب توقع اس ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ڈیل کے نتیجے میں کس کو کیا ملا ہے؟ پہلے امریکا کی بات کریں گے۔ امریکا کو اس ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ امریکا نے پہلے افغان۔طالبان کے درمیان ڈیل کرائی اور اب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدہ کرایا۔ ٹرمپ کو آنے والے انتخابات کا اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔ اسرائیلی لابی، جو امریکی معیشت کے حوالے سے اپنا اثرو نفوذ رکھتی ہے، اس ڈیل کی وجہ سے ٹرمپ کی حمائت میں کھڑی ہوگی۔ کیا پتہ 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ ایکارڈ کی طرح اس امن ڈیل کے نتیجے میں فریقین نوبل پیس پرائز حاصل کریں اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے عادی ٹرمپ اس کا کریڈیٹ لیں گے۔

اس ڈیل کی وجہ سے نہ صرف متحدہ عرب امارات بلکہ اسکے پڑوسی ممالک کا درد سر بھی ختم ہوجائے گا۔ یہ ڈیل متحدہ عرب امارات کو اس خطے میں ’’مڈل پاور‘‘ کے بطور ابھرنے کی خواہش کے حق میں بھی ہے اور اس کی وجہ سے اسے اپنی خود مختار خارجہ پالیسی، جس میں سعودی عرب کا عمل دخل نہ ہو، کی شروعات (جس کا عندیہ اُس وقت بھی ملا جب متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی پرواہ کئے بغیر ہی یمن سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا) کرنے کا ایک موقعہ بھی فراہم ہوگا۔ سعودی عرب اور اومان آہستگی سے لیکن مسلسل ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے۔ چونکہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کم ہورہے ہیں (ویسے بھی توانائی کے متبادل ذرائع پیدا ہوجانے کے ساتھ ہی تیل کے یہ ذخائر مزید بے وقعت ہوجائیں گے)، ایسی صورتحال میں سعودی عرب کو اپنی معیشت کے استحکام کےلئے اپنے وسیع و عریض زمینی رقبے سے استفادہ حاصل کرنا ہوگا۔ خلیجی تعاون ممالک (جی سی سی) کے مقابلے میں اومان کے پاس برائے نام ہی تیل کے ذخائر ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ خلیجی ممالک میں سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والے دوسرے بڑے ملک کے طور پر شمار ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود اومان کو بھی اپنی زمین کا سود مند استعامل کرنا ہوگا۔ چونکہ اسرائیل کے پاس بنجر زمین کو زرخیز زمین میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی اور ماہرت حاصل ہے، اس لئے ان دونوں ممالک کو اسرائیل کی مدد فراہم ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل بہتر انٹیلی جنس نیٹ ورک اور دفاعی اسلحہ کی پیداوار کا حامل ملک ہے، اس لئے اس کی وجہ سے خیلجی ممالک کو فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اور وہ ایران کے متوقع حملوں سے نمٹنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے، اس ڈیل کی وجہ سے وہ واضح طور پر نقصان میں ہے۔ اسے اب صرف اس بات پر اکتفا کرنا پڑے گا کہ اس ڈیل کے نتیجے میں اسرائیل اس کی مزید زمینیں نہیں ہڑپ سکتا ہے۔ اس ڈیل کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اب امارات فلسطین کاز کی معاونت نہیں کریں گے۔ جن مسلم ممالک نے ابھی تک اس ڈیل کی حمایت نہیں کی ہے، ممکنہ طور پر وہ اس کی حمائت کریں گے۔ اگر ایسا ہوگا تو مسلم دُنیا میں ترکی کے دوستوں کی تعداد گھٹ جائے گی۔ اسی طرح ایران بھی اپنے گرد نواح میں ان ممالک کو پائے گا، جو اس کے دوست نہیں ہیں۔ ایران کے ان پڑوسی ممالک میں عراق، خیلجی ممالک، افغانستان اور ناقابل بھروسہ پاکستان شامل ہیں۔ اس نئی ابھرتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کے پاس دو بُرے متبادل ہیں۔ چونکہ سعودی عرب مذہبی اور معاشی حوالوں سے مسلم دُنیا کی قیادت کررہا ہے، لیکن اب پاکستان ایک نیو کلیئر قوت ہونے کے نام پر مسلمانوں کی سیاسی قیادت کرنے کا متمنی ہے۔

اگر پاکستان اس ڈیل کی حمایت کرے گا تو وہ اپنے ساتھیوں جیسے کہ ترکی، ملیشیاء اور ایران کو کھودے گا۔ لیکن اگر وہ اس ڈیل کی حمایت نہیں کرے گا تو اس کے نتیجے میں مسلم دُنیا کی قیادت کرنے کی اس کی خواہش ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جائے گی۔ دوسری جانب اس ڈیل کی مخالفت کرنے کی صورت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے۔ پہلے ہی ان دو ممالک نے پاکستان کو قرضوں کی فراہمی اور ادھار پر تیل مہیا کرنا بند کردیا ہے۔ ڈیل کو مسترد کرنے کی صورت میں پاکستان کو ان ممالک کی طرف سے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی شہری ایک بڑی تعداد میں مقیم ہیں، جو اپنے ترسیلات زر کے ذریعے اپنے ملک کی مدد کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان دیوالیہ نکالے گا اور چین (جس نے پہلے ہی ڈیل کی حمایت کی ہے) بھی اپنے غریب دوست یعنی پاکستان کو قرضے فراہم نہیں کرے گا۔چین، جس کی خیلجی ممالک میں کافی سرمایہ کاری ہے، اپنی معاشی پالیسیاں احتیاط سے طے کرے گا۔

اس معاملے میں بھارت کو خوش ہوجانا چاہیے کیونکہ اب اسے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے اسرائیل کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے لئے ہماری اخلاقی اور سیاسی حمایت ابھی بھی جاری رہ سکتی ہے۔

اس سب کے باوجود، واضح صورتحال آنے والے دنوں میں سامنے آئے گی۔ مستقبل قریب میں ایک نیا جیو پولٹیکل سیاسی منظر نامہ ابھرے گا، جس کے اثرات نہ صرف اس خطے پر مرتب ہونگے بلکہ اس کا اثر عالمی سطح پر بھی دیکھنے کو ملے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.