طالبان نے افغانستان پر قبضہ کے ساتھ ہی بگرام کے سابق امریکی اڈے پر واقع افغانستان کی مرکزی فوجی جیل پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ بگرام قید خانہ ایک ایسی جیل ہے، جس کا موازنہ گونتاناموبے سے کیا جاتا رہا ہے، جہاں ٹرائل کے بغیر حراست میں رکھا جاتا تھا اور ملزموں پر ہر طرح سے ظلم کیا جاتا تھا تاکہ وہ گناہ قبول کرلیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز کے مطابق طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے چند گھنٹوں بعد ہی قیدیوں کو بگرام حراستی مرکز سے نکلنے کے احکامات جاری کر دیئے اور پھر بھی جو لوگ خود وہاں سے نہیں نکلے تو انہیں طالبان نے رہا کردیا۔
اسکائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں میں سیکڑوں قیدیوں پر شبہ ہے کہ ان کا تعلق دولت اسلامیہ گروپ افغانستان سے ہے۔ اب اس خالی حراستی مرکز میں چاروں جانب سے جال سے گھرے کمرے میں میٹرس دکھائی دے رہا ہے، لوگوں کے سامان فرش پر بکھرے ہوئے ہیں، ٹوٹے ہوئے فرنیچر اور قیدیوں کی فائلیں بھی بکھری ہوئی ہیں۔
امریکہ اور سابق افغان حکومت کے کنٹرول کے بعد اس مرکز میں تشدد اور قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ایک سابق قیدی عزیز احمد شبیر نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ انہیں ایک ماہ تک سرد خانے میں تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب میں ذہنی طور پر بیمار ہوں اور میرا دماغ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔
طالبان فائٹر ہجران مخلص نے سابق حکومت اور امریکہ پر "ملک کو تباہ کرنے" کا الزام لگایا۔ مخلص نے کہا کہ میں افغان حکومت اور امریکہ کے خلاف (بدلہ) چاہتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت لیکن مخلوط تعلیم کی نہیں
ممکن ہے کہ طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان میں مبینہ امریکی ظلم و ستم کی بہت ساری تصویریں سامنے آئیں گی، لیکن کیا عالمی انسانی حقوق ادارے ان کا جائزہ لیکر کوئی تحقیقات کریں گے، اس کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔